Leave a Comment

سود "ربا" کی تعبیرات (تتمہ)

سود "ربا" کی تعبیرات (تتمہ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: چوہدری طالب حسین


 قسط نمبر 1 کے لئے یہاں کلک کریں۔
قسط نمبر 2 کے لئے یہاں کلک کریں
سود"ربا" تعیبرات -١ ،کی پوسٹ پہلے پیش کی جا چکی ہے ،یہ اس کا تتمہ-١ ہے.،سابقہ پوسٹ کے ساتھ اسے بھی ملاحظہ فرمائیں.
مولانا پھلواروی کا شمار ان علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے -"بنک میں ڈیپازٹ اور قرضوں پر منافع جو کہ قرضوں پر لیا دیا جاتا ہے "کے حق میں اپنے دلائل دیے ہیں -اگرچہ انکی آراؤں پر دوسرے علماء اور اسلامی دنیا کے بھی تحفظات ہیں لیکن انکا کام اپنی جگہ بہت تعریف کے قابل ہے .ذیل میں ہم انکی تحریروں سے چند اقتباسات پیش کریں گے ،مگر ساتھ ہی دوسرے مآخذ سے بھی استفادہ کریں گے

اپنی کتاب "کمرشل انٹرسٹ کی فقہی حیثیت" ، میں مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی ،لکھتے ہیں کہ---
گو صحاح میں کوئی ایسی حدیث نہیں ملتی جس میں"الربوا" کی تشریح کی گئی ہو، تاہم ایک ہی مطلب کی دو احادیث مروی ہیں.
كل قرض جر منفعة فھو وجه من وجو ه الربوا
(بیہقی)
اور کل قرض جر به نفا فھو ربوا (مسند حارث بن اسامہ)
یعنی ہر وہ قرض جس سے نفع اٹھایا جاۓ :ربوا" ہے. لیکن اس کے اسناد ساقط ہیں (سیرت النبی جلد-٤) اس لیے صحیح یہی ہے کہ یہ احادیث ثابت نہیں . نیز ان میں نفع کا بطور معاملہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور بطور شرط کے نفع رسول اکرم (ص) نے خود ادا فرمایا ہے جیسا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے .(ث-١٤ محولہ بالا کتاب)

قرض اور دین کیا ہے .

جب کوئی شخص ابتداء میں کسی پر احسان اور تبرع کرتے ہوئے اسے کوئی مثلی چیز دیتا ہے تو اسے قرض کہتے ہیں. مثلاّ زید نے عمرو سے ہزار روپے مانگے تو عمرو نے اس کے مانگنے پر اسے مطلوبہ رقم دے دی، یہ قرض ہے، اور جو چیز کسی معاملے کے نتیجے میں یا کسی کی چیز کو نقصان پہنچانے یا ہلاک کرنے وغیرہ کے نتیجے میں لازم ہوتی ہے، اسے"دین" کہتے ہیں،مثلاّ زید نے عمرو سے ہزار روپے کے بدلے ایک من چاول خریدے اور قیمت فوراّ ادا نہ کی تو زید ہزار روپے کا مقروض ہو گیا. یہ قرض" دین" ہے. اسی طرح پہلی مثال میں عمرو نے زید کو جو رقم دی، وہ تو قرض ہے لیکن اسی معاملے کے بدلے میں وہ جو چیز واپس کرے گا وہ"دین" ہو گی کیونکہ اس کی ادائیگی عقد قرض کی وجہ سے اس کے ذمے لازم ہوئی.
علامہ حصکفی (رح) دونوں کے درمیان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں.--ترجمہ-- قرض وہ معاملہ ہے جس میں ابتداء میں کسی پر احسان اور تبرع کرتے ہوئے اسے کوئی مثلی چیز دی جاتی ہے تاکہ وہ اس کی مثل لوٹاتے اور جو چیز کسی معاملے کے نتیجے میں یا کسی کی چیز کو نقصان پہنچانے یا ہلاک کرنے وغیرہ کے نتیجے میں لازم ہوتی ہے، اسے"دین "کہتے ہیں.

اردو میں دین کے لیے بھی قرض کا لفظ استمال ہوتا ہے (غررکی صورتیں-kinds of uncertainty--از ڈاکٹر مولانا اعجاز احمد صمدانی صاحب - ادارہ المعارف کراچی.ث-٢١٧-٨ ٢١
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی دین کی مثالیں دیتے ہونے لکھتے ہیں. الدین کثمن مبیع و بدل قرض و مھر بعد دخول با لمرأة أو قبل الدخول بها وأجرة مقابل منفعة و أرش جناية وغرامة متلف و عو ض خلع و مسلم فيه.(فقہ الاسلامی و ادلة-٤٣٢/٤ .

ادھار کے لیے قرض اور دین کے الفاظ قرآن میں استعمال ہونے ہیں .
قرض ایسا ادھار جو انسان اپنی احتیاجات کے لیے کسی دوسرے سے لیتا ہے اور امام راغب(رح) کے مطابق وہ مال جو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے دیا جاۓ. اس شرط پر کہ وہ واپس مل جاۓ گا.--اور صاحب منتہی الارب اس پر اس شرط کا بھی اضافہ کرتے ہیں کہ ایسا ادھار جس کی ادائیگی کے لیے مدت مقرر نہ کی گئی ہو --اگر مدت مقرر ہو تو یہ دین ہے اس پر دلیل یہ آیت ہے.
اے ایمان والو. جب تم آپس میں کبھی لیں دین کے لیے قرض کا معا ملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو (القرآن ٢/٢٨٣)
اور دین سے مراد لین دین کی تمام ذمہ داریاں ہوتی ہیں. گویا یہ لفظ قرض سے عام ہے. یہ تجارتی اغراض کے تحت بھی لیا جا سکتا ہے. اور ذاتی ضرورتوں کے لیے بھی. اس کی مثال یوں سمجھئیے کہ ایک آدمی نے لوگوں کو پانچ ہزار روپے ادا کرنے ہیں. اور ساتھ ہی آٹھ ہزار لینے بھی ہیں . تو وہ مدیوں بھی ہے اور مقروض بھی. اور اگر کسی شخص نے ذاتی ضروریات کے لیے قرض کسی مقررہ مدت پر لیے تو اس نے مقررہ وقت پر قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے تو یہ قرض نہیں بلکہ دین ہے، کیوں قرض کا لفظ جہاں کہیں قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے. اکثر ساتھ حسنہ کا لفظ بھی آیا ہے اور قرض حسنہ کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ.
اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو اسے کشائش(کے حاصل ہونے تک) مہلت دو.القرآن ٢/٢٨١ .
اور ایسے قرض کو اللہ تعالیٰ قرض حسنہ فرماتے ہیں اور خود قرض لینے سے منسوب فرماتے ہیں حالانکہ یہ دیا تو صاحب احتیاج لوگوں کو ہی جاتا ہے. ارشاد باری تعالیٰ ہے.
کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے تو وہ اس کو اس سے دگنا ادا کرے اور اس کے لیے عزت کا صلہ (یعنی جنت وغیرہ) ہے. ٥٧/١٢.--(ماخذ مترادفات القرآن )

اس لحاظ سے ہر قرض دین ہوتا ہے،لیکن ہر دین قرض نہیں ہوتا .
ماحصل-- قرض-- ذاتی احتیاجات کے لیے واپسی کی شرط پر اور قرض حسنہ غیر معیں مدت کے لیے.
دین : کسی بھی طرح کی ادائیگی اور اس کی ذمہ داری کو کہتے ہیں خواہ یہ ادائیگی تجارتی قرضہ کی ہو یا ذاتی قرضہ کی یا کسی دوسرے چیز کی.

مولانا پھلواروی لکھتے ہیں جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ ، مندرجہ بالا روایات کے اسناد ساقط ہیں اور احادیث ثابتہ نہیں ہیں. لیکن دوسرے علماء نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے اور احکام اخذ کیے ہیں . ہم نے کئی مباحث میں دیکھا ہے کہ -قرض، دین ،تبادلہ،مبادلہ ،بیع،اجارہ وغیرہ کے مباحث میں انکو آپس میں گڈ مد کر دیا جاتا ہے ،اسی طرح لیں دین اور قمار اور دوسری خرابیوں کو سود/ربا ہی کی قبیل میں بیان کر دیا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے اصل نتیجہ تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ہو جاتا بلکہ نتائج ہی غلط اخذ ہو سکتے ہیں. مندرجہ بالا گفتگو میں احقر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ اگرچہ قرض دین میں تبدیل ہوسکتا ہے لیکن قرض کی بیان کردہ تعریف کو مد نظر رکھتے ہونے اس پر منافع طلب کرنا اخلاقی طور پر ہھی محال ہے ، اگرچہ خود نبی اکرم (ص) نے واپسی کے وقت اس پر اضافہ اپنی مرضی سے ادا کیا ہے . اس موضوع پر اپنے مقام پر نتیجہ اخذ کرتے وقت گفتگو ہو گی.

حضرت پھلواروی مزید اس میں اضافہ کرتے ہیں امام مالک پ-١٧٩ ھ(رح)نے موطا میں زمانہ جاہلیت کے ربوا کی یہ شکل بتائی ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو کسی مدت متعینہ پر کچھ قرض دیتا اور جب مدت ختم ہو چکتی،تو قرض دہندہ قرض دار کو یوں کہتا کہ یا تو قرض ادا کر دو، یا اس کی مقدار میں زیادتی کر دو. طبری،خازن، بیہقی،سیوطی خضریٰ،سب جاہلیت کے"ربوا " کی کم و بیش یہی شکل بتاتے ہیں. مودودی صاحب لکھتے ہیں،زمآنہ جاہلیت میں"الربوا" کا اطلاق جس طرز معاملہ پر ہوتا تھا،اس کی متعدد صورتیں روایات میں آئ ہیں. قتادہ کہتے ہیں. جاہلیت کا "ربوا" یہ تھا کہ ایک شخص ایک شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے وقت مقررہ تک مہلت دیتا. اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا. مجاہد کہتے ہیں کہ جاہلیت کا "ربوا" یہ تھا کہ ایک شخص کس سے قرض لیتا اور کہتا اگر تو مجھے اتنی مہلت دے تو اتنا زیا دہ دوں گا. ابو بکر جصاص(رح) کی تحقیق یہ ہے کہ اہل جاہلیت جب ایک دوسرے سے قرض لیتے تو باہم یہ طے ہو جاتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم اصل را س المال سے زیادہ ادا کی جاۓ گی.
امام رازی(رح) کی تحقیق میں اہل جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ وہ ایک شخص کو ایک معیں مدت کے لیے روپیہ دیتے. اس سے ماہ بماہ ایک مقررہ رقم سود کے طور پر وصول کرتے رہتے. جب مدت ختم ہو جاتی تو مدیون سے راس المال کا مطالبہ کیا جاتا. اگر وہ ادا نہ کر سکتا تو پھر ایک مزید مدت کے لیے مہلت دی جاتی اور سود میں اضافہ کر دیا جاتا. کاروبار کی یہ صورتیں عرب میں رائج تھیں. انہی کو اہل عرب اپنی زبان میں "الربوا" کہتے تھے اور یہی وہ چیز تھی جس کی تحریم کا حکم قرآن میں نازل ہوا"

یہ ظاہر ہے کہ احادیث صحیحہ اور دیگر متعدد روایات کے مطابق عرب جاہلیت میں"ربوا" کی جو صورت رائج تھی، وہ وہ تھی جو امام مالک نے بتائی ہے. اس کے متعلق قابل ذکر بات یہ ہے کہ"ربوا" کا تعیں اس وقت کیا جاتا تھا ، جبکہ مقروض رقم معلوم دینے سے عاری ہو چکا ہوتا تھا.(تاریخ التشریع مصر) اور اس کی اس حالت اضطرار سے قرض لینے والا بےجا فائدہ اٹھا کر اپنی من مانی شرطیں منوا سکتا تھا. یہ سود کی ایک خاص صورت تھی جو شائد عرب ہی میں رائج تھی، اور جس کے تحت مقروض کی حیثیت از حد کمزور ہوتی تھی. اس کے علاوہ حضرت مجاہد (رح)اور ابوبکر جصاص(رح) نے ایک دوسری صورت بتائی ہے، جس میں مدت قرض اور شرح سود دونوں کا فیصلہ معاملہ کے شروع ہی میں ہو جاتا ہے، جیسا کہ آج کل ہوتا ہے. تیسری صورت وہ ہے جس کا ذکر امام رازی (رح) نے فرمایا ہے . اگر دوسری اور تیسری صورتیں عام طور پر رائج ہوتیں تو غالب ہے کہ دوسرے اصحاب بھی اس کا ذکر کرتے. اس لیے گمان ہے کہ یا تو ان کا استعمال بہت کم ہوتا تھا، یا وہ ملک کے کسی خاص حصے میں ہی رائج تھیں اور ان کا علم عرب میں عام نہ تھا، لیکن ہمارے نقطہ نگاہ سے جو چیز خاص طور پر قابل توجہ ہے، وہ یہ ہے کہ خریدو فروخت سے متعلق جو مثال ملتی ہے وہ وہ ہے جو حضرت قتادہ نے بیان فرمائی ہے اور اس کا تعلق سود کی اس خاص صورت سے ہے،جس میں مقروض کی حیثیت بے حد کمزور ہوتی ہے اور اس پر ظلم ہو سکتا ہے.
باوجود کافی کوشش کے میں یہ معلوم نہیں کر سکا کے عرب جاہلیت میں"ربوا" کے اصطلاحی معنی کیا تھے. لیکن ان مثالوں سے جن کا اوپر ذکر آچکا ہے ،ہمارے علماۓاسلام نے یہ استنباط کیا ہے.(سود، حصہ اول ) کہ راس المال پر جو زائد رقم مدت کے مقابلے میں شرط اور تعین کے ساتھ لی جاۓ، وہ"ربوا" ہے لیکن اگر اس وقت کے ان معاملات میں جن پر"ربوا" کا اطلاق ہوتا تھا،کوئی اور جزو مشترک بھی تھا تو اس کو اور بھی عیاں کر دینا چاہیے تھا ،ورنہ اس کے بغیر"ربوا" کی تعریف نا مکمل رہ جاتی ہے. اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی کہے کہ گھوڑے کی ایک دم،چار ٹانگیں،چار سم،دو آنکھیں اور دو کان ہوتے ہیں،اس لیے جن مویشیوں میں یہ صفات ہوں،وہ گھوڑے ہیں. آپ فوراّ کہ دیں گے کہ یہ غلط ہے، کیونکہ گھوڑے کی سب ضروری صفات بیان نہیں ہوئیں.(کمرشل انٹرسٹ کی فقہی حیثیت --١٥-١٦)

پروفیسر ڈاکٹر فاروق عزیز ایک جگہ لکھتے ہے کہ کیا کسی شے یا نظریہ کے بارے میں معلومات کی کمی اسے باطل قرار دے سکتی ہے؟ اگر صرف معلومات کی کمی ہی معیار ہے تو اس کی بنیاد پر کیا نعوذباللہ تحریم ربا کے تصور سے انکار ممکن ہے؟ کیونکہ اسلامی ماہرین معاشیات آج تک اس کے حق میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں دے سکے ہیں نہ ہی آج تک کوئی یہ ثابت کر سکا ہے کہ اخلاقی وجوہ کے علاوہ اس کے کیا ٹھوس نقصانات ہیں تو کیا اس بنیاد پر تحریم ربا جیسے بنیادی قرآنی حکم کی نفی ممکن ہے؟ یقیننا نہیں اس کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.

متعدد علوم کے بارے میں سوالات اٹھا ے جا سکتے ہیں، مثلاّ علم الالرض،جغرافیہ ،موسمیات، حیا تیات،نباتات وغیرہ یا اس جیسے کئی علوم میں انسانی معلومات بہت کم ہیں تو کیا اں تمام علوم کے نظریات کو مسترد کر دیا جاتے. یہ تو ان علوم کی مثالیں ہیں جن کا طلاق فزیکل سانس سےہے، سماجی علوم میں تو صورت حال اور بھی زیادہ مخدوش ہے، مثلاّ محاسبی اکاو ٹنگ جو کاروبار کی بنیاد ہے اس میں آج تک منا فع Profit کی تعریف ہی ممکن نہیں ہو سکی . معاشیات Economics کے بیشتر قوانین محض نظری حیثیت رکھتے ہیں یا ا ن کا عملی اطلاق جزوی حد تک ممکن ہے.کئی معاشی مسائل ایسے ہیں جس کا ماہرین معاشیات کے پاس کوئی حل نہیں ----جیومیٹری جسے بنیادی علم کی بنیاد جس چیز پررکھی ہے، یعنی نکتہ Point اس کی آج تک کوئی تعریف ممکن نہیں ہو سکی تو کیا اس بنیاد پر جیو میٹر ی جیسے علم کو باطل قرار دیا جاےگا . یہ صرف چند مثا لیں ہیں.ورنہ بیشتر علوم کی صورت حال کم و بیش یہی ہے،لہذا کسی علم یا نظریے کی بابت معلومات کی کمی کی بنیاد پر اسے مسترد نہیں کیا جا سکتا.(ارتقاۓ حیات
ازرونے قرآن -ص-٤٨

Stay Connected To Get Free Updates!

Subscribe via Email

Follow us!

0 comments:

Post a Comment