2 comments

برما کے نہتے مسلمانوں پر مظالم اور تاریخ کے اوراق پرایک اور بدنما داغ.

    STOP THE MASSACRE OF BURMESE MUSLIMS-AN OTHER STIGMA ON THE FACE OF HISTORY


    آج برما کے نہتے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جانے کی خبریں موصول ہو رہیں ہیں  ، وہ اپنے ہی گھر    کی قبر میں بیٹھے ہویے ہیں عصر حاضر کی مہذب دنیا کے ماتھے پر سے یہ داغ دھویا نہ جا سکے گا.پوری دنیا  میں سے بلا امتیاز مذھب رنگ و نسل انسان دوست ، مسلمان کہاں ہیں؟  دنیا کو عمومی طور پر اور  مسلمانوں کو  خصوصی طور پر بتایا جا رہا ہے کہ یہ تاریخ کے واقعات ہمیں معاف نہیں کریں گے.



    عالم اسلام نے جب بھی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے تاریخ نے ایک اور  بد نما داغ کا اضافہ کر دیا ہے . ایسے ہی کچھ واقعات ہم یھاں نقل کر رہے ہیں  جنہیں ہمارے لیے ڈاکٹر ماجد عرسان کیلانی ،پروفیسرعلوم اسلامی  القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ، نے تالیف کیا ہے.


    پھر صلیبیوں کے حملے تیز ہوتے گئے اور وہ وسیع علاقوں پر مسلط ہو گئے . سن 491 ہجری /1097 عیسوی  میں وہ انطاکیہ پر قابض ہو گئے . وہ اپنی پیش قدمی میں بڑھتے چلےگئے حتیٰ کہ 492/1098 میں ان  کے ہاتھوں بیت المقدس کا سقوط واقع ہوا. 
    ہم عصر اسلامی ماخذوں نے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھاۓ گئے اور اس بلائے ناگہانی کے سامنے حاکموں اور مسلمانوں کی جماعتوں کے موقف اور اپنے مخصوص کاموں کو ترجیح دینے کی ہولناک تصویر پیش کی ہے. ان  میں سے وہ بھی ہے جس کا ذکر امام ابن جوزی نے اپنی تاریخ المنتظم میں اور ابن الاثیر وغیرہ نے کیا ہے. جب صلیبیوں نے رملہ،القدس اور عسقلان پر قبضہ جمایا تو ان شہروں کے باشندوں کا قتل عام کیا. مسجد اقصیٰ کے صحن میں تقریبآ ستر ہزار مجاوروں،علماء ،طلبہ،عبادت گزاروں اور زاہدوں کو قتل کیا (ابن خلدون- دواں المبتد اوالخبر -حصہ ٥ -ص-٢١)

    اس قتل عام کے نتیجہ میں اہل شام ،خلافت عباسیہ اور اہل مشرق سے امداد مانگنے کے لیے گئے . ابن الاثیر اور ابن کثیر نے اس وفد کی آمد،استقبال اور نتیجہ کے بارے میں بیان کیا ہے.وہ کہتے ہے. 
    لوگ شام سے بھاگ کر عراق کے طرف آئے . وہ فرنگیوں کے خلاف خلیفہ اور سلطان سے امداد کے طالب ہویے . انہی میں قاضی ابو سعید ہروی کی معیت میں ایک وفدبھی تھا. جب بغداد میں لوگوں نے اس ہولناک واقعہ کے بارے میں سنا تو وہ سخت خوف زدہ ہویے اور رونے لگے. ابو سعید ہروی نے اپنے کلام کو منظوم کیا اور یہ اشعار مجلس میں اور منبروں پر پڑھے گئے . لوگ بلند آواز سے روتے تھے. خلیفہ نے فقہا کو اپنا مندوب بنایا تاکہ وہ شہروں کا دورہ کریں اور حکمرانوں کو جہاد کی ترغیب دیں . فقہاء کے اکابرین میں سے ابن عقیل وغیرہ نکلے اور لوگوں میں پھرے مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا. ---ان للہ و اناالیہ راجعون ----اس بارے میں ابو المظفر ابیوری نے یہ اشعار کہے.
    ١. ہم نے بارش کی طرح بہتے آنسوں میں اپنا خوں ملا دیا. پس ہمارے پاس بہادروں کی سی بات کی ہمت نہ رہی.

    .٢ . آدمی کا بد ترین ہتھیار اس کے آنسو ہیں جو وہ بہاتا ہے. جس وقت لرائی بہادروں کے ساتھ اپنی آگ بھڑکا دیتی ہے.

    ٣ . اے اسلام کی اولاد تمہارے پیچھے،ایسے واقعات ہیں جنہوں نے کھلیان کو ہوا میں اڑا دیا ہے.

    ٤. آنکھ پوری طرح کیسے سوئے -ان ٹھوکروں پر جنہوں نے تمام سونے والوں کو جگا دیا.


    ٥. شام میں تمہارہے بھائیوں کی آرام گاہیں،قتل گاہیں یا درندوں کے پیٹ بن گئیں.


    ٦. رومی ان  کی ذلت کے درپے ہیں اور تم نےعیش و عشرت میں امن کے کام شروع کر رکھے ہیں.


    ٧.یہ وہ لڑائیاں ہیں کہ جو شخص ان  کے سیلاب سے دور رہا تاکہ سلامت رہے،وہ بعد میں ندامت سے دانت پیستا ہے.


    ٨. قریب ہے کہ ان کے لیے مدینہ منورہ میں بہ آواز بلند ندا دی جائے کہ اے آل ہاشم.


    ٩. میں اپنی امت کو دیکھتا ہوں کہ وہ دشمن کی طرف اپنے نیزے نہیں کرتے جبکہ دین کی مدد کمزور ہو چکی ہے.


    ١١. وہ ہلاکت کے خوف کی بنا پر آگ سے بچتے ہیں اور کاری ضرب کو عار نہیں سمجھتے.


    ١٢. کیا عربوں کے سردار اذیت پر راضی ہو گئے ہیں اور انہوں نے عجمی بہادروں کی ذلت اپنا لی ہے.


    ١٢.کاش کہ اگر انہوں نے  دین کی حمیت میں دفاع نہیں کیا تو اپنی محرومیوں کی غیرت کے لیے ہی کچھ کرتے.


    ١٣.اگر انھوں نے اجر سے کنارہ کیا جب لڑائی گرم ہوئی. تو انہیں مال غنیمت کی رغبت کیوں نہیں دیتے.(ابن کثیر :البدایہ حصہ ١٢ -ص -١٥٦-١٥٧- بحوالہ الکیلانی)


    ابنی تغری بردی روایت کرتا ہے کہ کسی دوسرے شاعر نے یوں کہا.


    ١. کفر نے اسلام پر ظلم ڈھائے اس پر دین کے لیے آہ زاری طویل ہو گئی.


    ٢.حق ضائع  اور اشتعال جائز کاٹتی تلوار اور بہتا خون.


    ٣. کتنے مسلامان ہیں جنہوں نے لٹے پٹے شام کی اور مسلمان عورتیں جن کی عزتیں لٹ پٹ گئیں.
    ٤. ایسے کام جن پر بچہ غور کرے بوڑھے کو ان کے پیش آنے کی حقیقت دریافت کرنی چاہیے.


    ٥. کیا مسلمان عورتیں ہر سرحد پر قیدی بنائی جائیں گی اور یوں مسلمان مردوں کی زندگی خوش گوار ہو گی .


    ٦.اہل بصیرت کو کہہ دو  وہ جہاں کہین بھی ہوں اللہ کو مانو،افسوس تم پر،مانو.


    ابن تغری بردی مزید لکھتا ہے کہ دوسرے شعرا اور خطباء بھی ہمتوں کو ابھارتے رہے اور سرکاری و عوامی اجتماعات منعقد کرتے رہے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا. ابن تغری بردی اس نتیجہ پر ان الفاظ میں تبصرہ کرتا ہے: مقصود یہ کہ قاضی اور اس کے ساتھی بغیر کسی مدد کے بغداد سے شام واپس ہو گئے ... ولا حول و الا قوة الا باللہ (النجوم الزاہرہ -حصہ-٥-ص-١٥٢-بحوالہ الکیلانی )


    اسلامی تاریخوں نے القدس ،سواحل شام اور لبنان میں صلیبیوں ہولناکیوں کے سامنے خلفاء اورر سلاطین کے تغافل کی قبیح تصویر پیش کی ہے ایک طالب امداد وفد بے ایک بڑی بوری جمع کی جو کھوپڑیوں،عورتوں اور بچوں کے بالوں سے بھری ہوئی تھیں اور اسے ذمہ دار افراد کے سامنے بکھیر دیا. اس پر خلیفہ کا وزیر کو جوابیہ تھا "مجھے چھوڑو---میں اس زدہ ہم چیز میں مصروف-میں نے اپنے چتلے کبوتر کو تین راتوں سے نہیں دیکھا "
    خلیفہ کا ایک کبوتر تھا جس کا رنگ چتلہ تھا-وہ کبوتروں پر غلبہ پانے اور چٹکی کی آواز پر سدھایا ہوا تھا. یہ کھیل لوگوں میں مقبول تھا اور خلیفہ بھی اس کا بہت شوقین تھا. اس طرح دولت مند اور اونچے طبقے اس کی طرف مائل تھے .(الکیلانی)


    اس سال جس میں بیت المقدس پر قہر نازل ہوا ،سلجوق سلاطین،ملک شاہ کے تین بیٹے محمد ،سنجر اور برکیہ روق اپنے اثر و رسوخ اور اقتدار کے لیے باہم لڑ رہے تھے . اس سال ذی الحج میں محمد بغداد میں داخل ہوا اور اس کے نام کا خطبہ پڑھا . پھر وہ رے کی طرف گیا جہاں اسے اپنے بھائی برکیہ ورق کی والدہ سیدہ زبیدہ ملی- محمد نے حکم دیا کہ اسے گلا گھونٹ کر قتل کر دیا جاۓ.اس وقت اس نے اپنے بھائی برکیا ورق کے خلاف پانچ بڑے معرکے لڑے( ابن کثیر -البدایہ ،حصہ ١٢،ص -١٥٧- بحوالہ عہد ایوبی کی نسل نو اور القدس کی بازیابی از ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی- مترجم پروفیسر صاحبزادہ محمد عبدالرسول -اردو سائنس بورڈ لاہور.)


    آج کے دور میں طریقہ کار بدل چکا ہے اور کسی ریاست میں دوسری ریاست کی دراندازی درست اور قانونی تصور نہیں کی جاتی  اس لیے اسلامی  اور دوسری  دنیا کو چاہیے کی مظلوموں کے لیے آواز اٹھائی جاۓ اور موثر کاروائی کے لیے کام کیا جاۓ. 



      

    Stay Connected To Get Free Updates!

    Subscribe via Email

    Follow us!

    2 comments:

    1. عالم اسلام کا بیشتر حصہ غلامی کی زندگی بسر کر رہا ہے جس سے طاغوت مظبوط سے مظبوط اور اسلام کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے. ایک ناقد نے لکھا ہے" کعبہ کے کالے رنگ کےذکر کے بعد -------مقابل میں احرام کا سفید رنگ امریکہ کے وہائٹ ہاوس کی علامات شمار کیا جانے لگا .یوں کہ بیت اسود---کعبہ--- کے گرد بیت ابیض ---وہائٹ ہاوس---نے سیاسی عسکری اور تجارتی گھیرا ڈال رکھا ہے .اور واقعاتی طور پر جارج بش کے بعد جارج ڈبلیو بش کو --خادم الحرمین بنایا گیا-سعودی کنگ کے امریکہ بش فیملی کے ساتھ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں .نیز سعودی رائل فیملی--آل سعود--- کے داخلی اختلافات سے قطع نظر ،ان کا مطمح نظر ابیقوریت * کے سوا کچھ نظر نہیں آتا،یعنی کھاؤ،پیو اور عیش کرو .علاوہ بریں،--ہامانیت--کا منصب سنبھالےمحمد بن عبدالوہاب النجدی کی نسل،جو --الشیخ- کھلاتی ہے،عقیدے کے نام پر پوری مسلم دنیا میں خفیہ و بر ملا ذرایع اپنا کر جنونیت** پھیلاتی ہے. ----فکرونظر جون ٢٠٠٩-ص ٩٢
      * Epicurainism ** fanaticism
      اس طرح مسلمانوں کا مرکز ہی طاغوت کا غلام ہے اور وہ عیش کی زندگی گزار رہے ہیں.مسلمانوں کے اجتماعی وسائل اجاڑ کر اسلام دشمن عناصر کو تقویت پہنچا رہے ہیں ،باقی مسلمانوں کا حال بتانے کی ضرورت نہیں ہے.جو مسلمان عربوں کی ممالک میں مزدوری کرنے جاتے ہیں ان سے بھاری رقوم --کفیل و کفالت---کے نام پر لی جاتی ہیں جو کے بغیر کس معاوضہ کے ہوتی ہیں .حالانکہ اسلامی ریاستوں میں ایسا نہیں ہونا چاہیے .

      ReplyDelete
    2. فکرو نظر میں مندرجہ بالا ناقد لکھتا ہے----تیل اور سونے کے خزانے دریافت ہونے کے بعد سعودیہ امیر اور خوشحال ملک کے طور پر جانا جاتا ہے اور دیگر ممالک میں بھی سعودی کرنسی ان ملکوں کی افرادی قوت، نیز سعودی ایجنٹوں کے توسط سے پہنچنا ایک عام بات ہے. تاہم قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ سعودیہ ظاہری طور پر دوسرے --اسلامی-ممالک کی سیاست میں دخل دیے بغیر اپنے اسی مخصوص ایجنٹ طبقے کے ذریعے خود کو ان داتا سمجھتے ہویے در اندازی ضرور کرتا ہے. جبکہ خود اپنے ہہاں چند شہری علاقوں سے ہٹ کر باقی آبادی اس طرح بدو کی بدو اور بد حال نظر آتی ہے. معلوم نہیں روایت اور ثقافت کے نام پر ان کی حالت ویسی رکھی گئی ہے،یا ابھی تک بقول اقبال،شرع پغمبر-ص-- ان پر آشکارا نہیں ہوئی یہاں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ شریف مکہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سعود بن عبدالعزیز نے--ملک--یعنی بادشاہ -کا لقب کیوں اختیار کیا،کہ جس کے باعث وہ ایک مخصوص مزاج کا حامل حکمران قرار پائے ؟--خادم الحرمین-- کا لقب بھی محض مناسک و عبادات کی ادائیگی میں سہولیات فراہم کرنے پر دلالت کرتا ہے،جو عربوں کا اسلام سے پہلے بھی ایک قبائلی عہدہ تھا ،یعنی--سداتہ الکعبہ---اس فرق کے ساتھ کہ اب کعبہ کے ساتھ"مسجد نبوی" کا اضافہ ہو گیا،برہمن اور کھتری، کی حکومتی سطح پر تقسیم بھی عمل میں آئ ،یعنی، آل سعود، اور آل شیخ، کی تقسیم، جو محض تنفیذیہ--بشمول عسکریہ--اور مقننہ--یا عدلیہ-کی تقسیم نہیں .علاوہ بریں،نظریات و اصول کے اختلاف کی بنا پر وہاں علمی سطح پر باہم بات چیت یا واضح عدالتی کاروائی کی بجاۓ وجہ ظاہر کیے بغیر ایک طرح کی * اور نظر بندی بھی عمل میں لائی جاتی ہے.صرف حکومت کے ہمنواہ ، جو مل کر مدح کی قوالی گاتے ہیں، غیر قانونی بلکہ،حرام و ناجائز ،باتوں کی بھی رخصت پاتے ہیں، اور ان اغراض کے لیے دمام ایسے شہر کے بعد، بسہولت بحریں پہنچ جاتے ہیں،جہاں سمندر کے بیچوں بیچ ایک بری راستہ بھی بنا دیا گیا ہے.ان ہمنواؤں میں بھی اگر کوئی عتاب کی زد میں آجاتا ہے تو وہ اپنے خلاف ہونے والی کاروائی پر بطور رد عمل دبئی یا لندن پہنچ کر انٹرنیٹ پر گندی فلمیں جاری کرتا ہے.
      *Persecution

      ReplyDelete