Leave a Comment

فلوس اور زر کی تاریخی اور شرعی حیثیت

     فلوس اور زر کی تاریخی اور شرعی حیثیت
    فلوس "فلس"کی جمع ہے .اس لفظ کی اصل کے بارے میں مختلف آراء ہیں .بعض  حضرات کی رائے   میں یہ یونانی  لفظ ہے ،جسے عربوں نے معرّب  بنا لیا ہے .یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے سوا کوئی اور اصل ہو .الموسوعة العربية الميسرة  كے مصنفين  اس بارے میں لکھتےہیں:
    یہ تانبے یا پیتل کا سکہ  ہے،جسے عربوں نے بازنطنیوں سے مستعار  لیا ہے

    ،بازنطینیوں کے ہاں فلس کے لیے کوئی خاص وزن  مقرر نہیں تھا ،لیکن عربوں نے اس کا وزن کانچ کے ایسے باٹوں" الصنج کے ساتھ متعین کر دیا ،جنہیں خاص پیمانوں  کے تحت  مقرر کیا گیا تھا .یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فلس ایک درہم کے اڑتالیسویں حصے کے برابر ہوتا تھا .﴿خرید و فروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت۔۔ الشریعہ اکیڈمی اسلام آباد﴾
    لسان العرب،کے مطابق ،فلوس "فلس "کی جمع ہے،فلس پیسہ کے معنیٰ میں ہے،اسی سے "افلاس "اور "تفلیس "مشتق ہے،افلاس کے معنی غربت کے ہیں ،اور تلفیس کے معنی  ہیں : حاکم کا کسی کو مفلس قرار دینا (زر کا تحقیقی مطالعہ از ڈاکٹر مولانا عصمت اللہ  صاحب )
    تقی الدین احمد بن علی مقریزی -وفات ٨٤٥ ھ ،اپنی کتاب شذور العقود في ذكر النقود میں فلوس پر بحث کرتے ہونے  لکھتے ہیں:
    "ایسے نقود جو اشیا فروخت کا ثمن اور خدمات کی قیمت بن سکتے ہیں وہ صرف سونا اور چاندی ہیں ....لیکن چونکہ بعض  اشیا فروخت اتنی کم قیمت کی ہوتی ہیں کہ انہیں ایک درہم یا اس کے کچھ حصے کےعوض  فروخت نہیں کیا جا سکتا  تھا ،اس لیےانسان کو قدیم اور جدید دور میں سونے اور چاندی کے سوا کسی ایسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی ،جس کے ذریعہ ایسی معمولی قیمت کی اشیا خریدی جا سکیں۔ فلوس کے ذریعے کسی اہمیت کی حامل چیز کو نہیں خریدا جاتاتھا،بلکہ انہیں صرف گھریلو اخراجات کے لیے استعمال کیا جاتاتھا. .....پھر محمود بن علی استادار ملک ظاھر برقوق کے دور میں فلوس کا استعمال زیادہ ہو گیا اور انگریز  پرافٹ کمانے کےلیے تانبا مصر میں لانے لگے. سالہا  سال تک فلوس ڈھلتے رہے اور انگریز مصر کے دراہم اپنے ملک منتقل کرتے رہے، جبکہ اہلیان وطن منافع کمانے  کی غرض سے انہیں ڈاھلتے رہے یہاں تک کہ انکا وجود ناپیدہو گیا اور وہ نایاب ہونےکے قریب ہو گیے. اس دور میں فلوس کو اتنا رواج حاصل ہوا کے تمام اشیا فروخت انہیں سے منسوب کی جانے لگیں اور یوں کہا جانے لگا: ایک دینار اتنےفلوس کے عوض  آتا ہے۔ خدا کی قسم یہ ایسی بات ہے،جسے ذکر کرتے ہونے بھی شرم محسوس ہوتی ہے،کیونکہ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے.لیکن کافی عرصے تک انہیں استعمال کرنے کیوجہ سے لوگ ان سے مانوس ہو گئے ہیں کیونکہ انھیں تو اپنےمنافع سےغرض ہوتی تھی ،حالانکہ یہ بڑی افسوس کی بات ہے.(بحوالہ -خرید  و فروخت  محولہ بالا)
    امام نووی لکھتے ہیں کہ اگرچہ  یہ بعض شہروں میں بطور ثمن کے استعمال ہوتے ہیں ،لیکن عام طور پر ثمن کی جنس میں سے نہیں ہیں. یہ بات مقریزی کےساتھ بھی کچھ ملتی ہے .
    ١  . جس صورت حال  کے دوران  مصر میں فلوس کا رواج زیادہ ہوگیا تھا ،وہ ایک مدت تک قائم رہی ،جبکہ مہنگائی کی شدت اور چاندی کی کمیابی کی صورت میں، اس کے افسوس ناک نتائج برآمد ہوےٴ .
    ٢. فلوس رواج پانے کے باوجود مقریزی کی نگاہ میں ایسی کم قیمت اشیا کے معا و ضے کی حیثیت رکھتے ہیں ،جنہیں درہم یا اس کے کچھ حصے کے عوض نہیں خریدا جا سکتا ،نیز مقریزی کے بقول انہیں نقدی بھی  نہیں کہا گیا -ان کی را ے میں فلوس کا رواج پانا قانون فطرت کے خلاف ہونے کی وجہ سے شرمناک بات ہے -اس کے ساتھ ساتھ مقریزی فلوس کو صرف تانبے کا  سامان شمار کرتے ہیں ،جس کی قیمت کا تعین اس کی دھات کی قیمت اور ٹکسال میں اٹھنے والے اخراجات کی ذریعه کیا جاتا ہے، لہذا یہ ایسا سامان ہے ،جس کی قیمت نقدی کے ذریعہ لگائی جاتی ہے نہ کہ ایسی نقدی کے زر یعہ سامان  کی قیمت لگائی جاتی ہے  .
    فلوس کی مختصر  اسلامی  تاریخ :-
    کہا جاتا ہے کے فلوس سے قبل لوگ گندم وغیرہ بطور ثمن استعمال کرے تھے ،اس کے بعد تانبے وغیرہ کے فلوس رائج ہو گنے ...مراجعت کتب سے معلوم ھوتا ہے کہ فلوس حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ١٧ھ میں "بازنطینی "طرز  پر بنایا ،یہ فلوس بلاد مصر   میں پھیل گئے ،ان فلوس پر عربی حروف میں ان کا نام بھی درج تھا .اس کے بعد ایسے فلوس بنا ے گئے ،جن پرڈھالے جانے کی تا ریخ اور مقام کا نام بھی درج ھوتا تھا،ان فلوس میں قدیم ترین فلوس ٩٠ھ کے ہیں .
    ابو الفضل حنفی نے خراسان میں فلوس کو خوب رواج دیا ،چنا نچہ وہ فلوس کے بارے میں کہتے ہیں . "هي فينا بمنزلة الفضة عندهم "  يعني فلوس ہمارے نزدیک  وہی حثیت رکھتے ہیں،جو ان کے ہاں چاندی ...اس زمانے  میں اسی زر سے معاملات ہونے لگے ،اور یکے بعد دیگرے بادشاہ فلوس بناتے رہے ،لیکن  ٦٥٠ھ میں لوگوں کے پاس فلوس بہت  زیادہ هو گنے .تقریبا  ٧٢٠ھ کے لگ بھگ امر محمود  نے قاہرہ میں فلوس ڈھالنے شروع کیے، اور دراہم کو ختم کر دیا ،اور فلوس ہی کو سونے اور دوسرے معاملات کا معیار قرار  دیا گیا،اب اس کا مطالب یہ ھوا کہ اس زمانے میں فلوس ہی نے اصل زر کی حثیت اختیا ر کر لی....چناں چہ٨٢٨ھ میں بادشاہ نے اعلان  کیا کہ فلوس میں ہر ر طل بارہ درہم کے برابر ھو گا ،اس کے بعد اس کی قیمت زیادہ ھو گئی،اور یہ اعلان کیا گیا کہ ہر رطل  ١٨ درہم کا هو گا .(زر کا تحقیقی مطا لعہ...محولہ بالا  ماخذ)لیث بن سعد(رح-م -١٧٠ ھ) کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید (رح -م -١٤٣-ھ ) اور ربیعہ(رح -م-١٣٢ ھ ) سے مروی ہے کہ وہ فلوس کے ساتھ ادھار اور کمی بیشی کے ساتھ خریدوفروخت کو مکروہ سمجھتے تھے اور کہا کرتے تھے : فلوس سونے چاندی کی طرح نقود کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں (خریدوفروخت-صفحہ-١٣٥)
    امام مالک(رح-٩٣-١٧٩-ھ) نے فلوس کو درج ذیل دو شرطوں کے ساتھ نقود قرار دیا ہے :
    ١.ان پر شاہی مہر ثبت هو (٢) انہیں معاشرے میں  نقود اور ثمن کی حیثیت سے رواج حاصل هو .
    امام مالک نے ایک موقع پر فلوس کو سامان بھی قرار دیا ہے، چنانچہ مدونہ کے مصنف لکھتے ہیں" میں نے پوچھا
    : اگر میں آدھے درہم کے عوض فلوس اور باقی آدھے درہم کے عوض نصف درہم کے وزن کی بقدر چاندی خریدوں تو کیا امام مالک کی رائے میں یہ جائز ہے ؟ انہوں نے  جواب میں کہا : چونکہ فلوس کی حیثیت سامان کی سی ہے اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں -(المدونا ٤٠٣/٢).
    چونکہ امام مالک نے بعض مواقع پر فلوس کو سامان بھی قرار دیا ہے،اس لئے یوں معلوم ھوتا ہے کے انہوں نے فلوس رائج اور متداول ہونے کی صورت  میں انہیں نقود قرار دے کر سونے چاندی کے ساتھ ان کی ادھار خریدوفروخت کو جو ممنوع قرار دیا ہے یہ صرف سد ذریع کے طور پر تھا. واللہ اعلم .(خریدوفروخت-١٢٣)
    امام نووی (رح -م-  ٦٧٧ہ  ) کے نزدیک"فلوس" اگرچہ بعض شہروں میں ثمن کا درجہ رکھتے ہیں ،لیکن یہ ثمن کی جنس میں  سے نہیں ہیں .
    فلوس جہاں صرف محدود علاقائی سطح پر معتبر سمجھے جاتے تھے وہاں ان کی قیمت بھی بہت معمولی ہوتی تھی ،جو ایک درہم کے اڑتالیسو ین حصہ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی (النقود و استبدال العملات :ص-ع) اسی لیے انہیں صرف حقیر اشیا کے ثمن اور ریزگاری کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ،نیز اسی لیے انہیں محض ایسا سامان تجارت سمجھا جاتا  تھا جسے نقدی کے طور پر قبول کرنے پر کسی علاقے کے لوگ اتفاق کر لیتے ہیں، چنانچہ  تانبے اور لوہے کے سکے در حقیقت تانبے اور لوہے کے ٹکڑے ہوتے ہیں،جن میں محض ڈھلنے کی وجہ سے امتیازی شان پیدا هو گئی ہے ،جبکہ تانبا اور لوہا نقدی نہیں،بلکہ سامان ہیں تو ان سے بنے سکے بھی سامان کے حکم میں ہونے چاہیں(المدونة)

    يہي وجه هے  إمام مالك نے فلوس کو سامان کے حکم میں قرار دیا ہے ،نیز ابن  عابدین  نے اپنے حاشیہ میں حنفیہ کا یہی مذھب نقل کیا ہے (حاشیہ ابن عابدین )

    عقد صرف اور فلوس ،کے مباحث میں فقہاء کرام کی عبارا ت سے یہ بات اچّھی طرح واضح هو جاتی ہے کہ اکثر فقہائے اسلام کے نزدیک فلوس ایسے نقود کی حثیت نہیں رکھتے ،جن پر عقد صرف  کے قواعد اور احکام کا اجراء ہوتا ہو،بلکہ ان  کے نزدیک ان کا حکم اس دھات والا ہے،جس سے یہ بنے ہیں. جن فقہاء کے نزدیک فلوس مال ربوی نہیں،ان کے نزدیک یہ سامان ہیں،نقود نہیں ،نیز وہ انہیں موزو نی اشیا کی بجائے عددی اشیا میں شمار کرتے ہیں یا پھر سامان کے حکم  میں سمجھتے ہیں، اسی لیے ان کے نزدیک ان میں سود متحقق نہیں ہو سکتا ،کیونکہ  مالکیہ اور حنابلہ کے ایک قول  مطابق سونے اور چاندی میں سود کی علت ثمنیت اور باقی اصناف میں طعم (کھانے پینے کی اشیا میں سے ہونا )ہے .

    شافعیہ کے نزدیک نقدین میں سود کی علت ان کا حقیقتاّ ثمن ہونا(جو هرية الأ ثمان) اور دیگر أصناف میں طعم ہے.

    جیسا کے پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ حنفیہ میں سے صرف امام محمّد(رح-م-) نے اس بنیاد پر فلوس کو مطلقا مال ربوی قرار دیا ہے کہ لوگوں کے ہاں اصطلاحی ثمن بن جا نے کی وجہ سے ان میں ثمنیت کا وصف غالب آ گیا ہے ،جبکہشیخین نے فلوس کے مال ربوی ہونے کے لئے عدم تعيين کی قید لگائی ہے  ،کیوں کہ ان کہ نزدیک تعيين کہ بعد یہ ثمن نہں رہتے ،بلکہ سامان بن جاتےہیں.

    حنابلہ میں سے بعض حضرات نے اگرچہ فلوس میں سود کی علت وزن اور ماپ کو قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے ہاں اس بارے میں مختلف اقوال ملتے ہیں ،چنانچہ بعض حنابلہ نے اصل کے اعتبار سے موزونی ہونے کی وجہ سے فلوس کو مال ربوی قرار دی ہے ،لیکن انہوں نے بھی فلوس کی ثمنیت کو معتبر نہیں جانا، جبکہ دیگر بعض نے ان کے عددی ہونے کی بنیاد پر ان کے مال ربوی ہونے کا انکار کیا ہے ،لہذا اس را ے کے مطابق ان میں سود کی کوئی علت موجود نہیں (المغنی ابن قدامہ  ١٤٠/٤-بحوالہ خریدوفروخت).

    مصنف "زر کا تحقیقی مطالعہ"لکھتے ہیں .--فلوس کے ثمن ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف فقہاء--

    فقہاے کرام کی عبارت کے تتبع  اور استقرا سے اور ان پر غور کرنے سے اس سلسلے میں تین اقوال سامنے آتے ہیں، جو درج ذیل ہیں:-

    ١. حضرات حنفیہ میں سے امام محمد،محمّد بن الفضل، علامہ سرخسی ، علامہ حلوانی ،حضرت مالکیہ ، علامہ ابن تیمہہ ، اور اللہم ابن القیم(رح)، ان حضرا ت(رح) کا قول ہے کہ فلوس اثمان ہیں.

    ٢. حضرات حنفیہ (رح) میں سے امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف کے ہاں فلوس کو ثمنیت  لازم نہیں اور متعین کرنے سے متعین  ہوتے ہیں، اور حضرات شا فیعہ کا قول یہ ہے کہ فلوس اثمان نہیں .

    ٣. حضرات حنابلہ (رح )کی اس سلسلے میں دو رواتین ہیں ، ایک رویت یہ ہے کہ فلوس اثمان ہیں، یہی امام احمد بن حنبل (رح) سے  منصوص ہے، اور یہی ان کے ہاں راجح ہے ،اور دوسری روایت بعض حنابلہ اہل علم کی ہے،اور وہ یہ کہ فلوس اثمان نہیں ہیں ،گویا کے حنابلہ ایک روایت میں فریق اول کے ساتھ ہیں، اور دوسری روایت کے مطابق فریق ثانی کے ساتھ ہیں.(ڈاکٹر مولانا عصمت اللہ صاحب -ص١٢٥ -ادارہ المعارف کراچی )

    عصر حاضر کے سکا لر دوکتور البوطی لکھتے ہیں .میری راءے میں ایسی صورت حا ل میں جبکہ فلوس ہی معروف نقود کی حثیت اختیار  کر چکے ہوں  اور رواج میں سونے چاندی کے مشابہ ہو چکے ہوں ، بلکہ مقریزی کے بقول  ،چاندی کے غائب ہونے کے بعد اس کی جگہ لے چکے ہوں تو ان پر نقدین (سونے چاندی) کے احکام جاری نہ کرنا شریعت کی دو

     درج زیل اہم ترین احکام کو معطل کرنے کے مترادف ہو گا .

    ١. زکاةکو الله تعالى نے أموال میں  واجب قرار دیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، " اور جن کے مالوں میں حصہ مقرر ہے-(یعنی )مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کا" اور نقود بھی اموال ہیں -

    سود- شافعیہ نے اس کی علت اگرچہ کسی چیز کی حقیقت کے اعتبار سے ثمن ہونے(جوهرىة  الاثمان ) کو قرار دیا ہے، لیکن فلوس چونکہ نقدین(سونے، چاندی) کے قائم مقام ہو گئے ہیں ، اس لیے یہ محض تانبا ہونے کی حیثیت سے نکل کر نقدی کی حثیت اختیار کر گئے ہیں، نیز امام الحرمین نے چونکہ سونے چاندی کا مقصد نقدیت کو قرار دیا ہے ، اس لیے قیاس مشا بہتکی بنیاد پر فلوس کو سونے چاندی کے ساتھ ملحق کیا جا نے گا...بلکہ بعض اوقات تو نقدی ہونے کی حیثیت سے فلوس کا استعمال سونے چاندی سے بھی بڑھ جا تا ہے -والله أعلم .

    ڈاکٹر محمد توفيق رمضان البوطي مندرجہ بالا مضمون کے سسلے پر تبصرہ کرتے ہونے لکھتے ہیں کہ - شائد میرا یہ کہنا قبل از وقت ہو کہ فقہا  نے فلوس کا جو مفہوم بیان کیا ہے، آج کل عام طور پر اس مفہوم میں فلوس استعمال نہیں ہوتے، لیکن گزشتہ تحقیق کی روشنی میں،میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں  کہ عام طور پر فلوس صرف کم قیمت اشیا کے ثمن کے طور پر استمال ہوتے تھے، جن کی عرفی حثیت تو تھی ،لیکن ذاتی حیثیت تانبا ہونے سے زیادہ نہ تھی.ان کی قیمت کا مدار دو چیزوں پر تھا:

    (١)تانبے کی حثیت سے وزن (٢) ڈھلائی کے اخراجات .

    اس ڈ ھلائی کی بدولت انہیں محدود پیمانے پر عرفی ثمن کی حثیت سے استعمال کیا جاتا تھا،لیکن جب فلوس نے سرکاری اعتبار کی وجہ سے ،قطع نظر اس کے مفاسد اور برے نتائج کے ،نقد کی صورت اختیار کر لی تو فقہاء نے وصف ثمنیت کے غلبہ کی وجہ سے ان پر سود کے احکام جاری کرنا شروع کر دیئے،خاص طور پر جب ان کا استعمال اتنا عام ہو گیا کہ سونے  چاندی کا بھی ان جیسا رواج نہ رہا، چنانچہ جب خراسان میں فلوس رائج ہو گے تو حنفیہ اور مالکیہ نے یہی رائے اختیار کر لی، حنابلہ کی ایک رویت بھی اس کے مطابق ہے (منتهي الارادات ،فتح القدير، حاشية ابن عابدين)

    نیز  فقہاء،شافعیہ نے اور ابن ححر نے اپنے فتاویٰ میں اس کی تصریح کی ہے (ال مجموع -نووی ، ال-فتویٰ الکبریٰ ابن حجر ).

    ایک دلچسپ تاریخی واقعہ.

    مصنف تاریخ مبارک  شاہی لکھتا ہے کہ، سلطنت کے اخراجات پورے کرنے کیلے ،سلطان محمّد شاہ نے آٹھویں صدی ہجری میں، خزانہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے (سونے کی بجاے) تانبے کی مہریں (سکّہ رائج الوقت کے طور پر جاری کرنے ) کا حکم صادر کیا اور اس کا نرخ بیس پنجگانی اور موجودہ ایک ٹنکہ کے مساوی نرخ مقرر کیا -جو شخص اس (تانبے کی) مہر کو قبول کرنے میں حیل و حجت کرتا تھا سزا پاتا تھا. دیہات کے ہندؤوں اور مفسدوں نے  قصبات کے لوگوں کی دیکھا دیکھی اور ان کی مدد  سے گاؤں گاؤں سکوک بنانےکے مراکز قائم کر لیے اور دھڑا دھڑ تانبے کے سکّے  ڈھال ڈھال کر شہروں میں بھیجنے اور ان کے بدلے میں سونا ،چاندی، گھوڑے ، ہتھیار اور دیگر قیمتی اشیا خریدنے لگے ...مختصر یہ کہ جلد ہی دور و دراز کے لوگ تانبے کے سکے لینے سے انکار کرنے لگے اور سونے کے ایک ٹنکے کی قیمت تانبے کے پچاس ساٹھ ،ٹنکوں تک پہنچ گئی.جب اس نے اس سکے کی کساد بازاری دیکھی تو مجبور ہو کر اس کو منسوخ قرار دے دیا اور حکم جاری کیا کہ جس کسی کے گھر میں تانبے کے ٹنکے ھوں لے آئے اور  اس کے عوض شاہی خزانے سے سونے کے ٹانکے لے جائے. اس طرح سے تانبے کے سکوں کے بدلے میں سونے کے ٹانکے خزانہ شاہی سے لے جا کر لوگ امیر ہو گیے  اور وہ تانبے کے ٹنکے جو لوٹائے گیے(اتنی بڑی تعداد میں تھے کی ان سے) قصر تغلق آباد میں بڑے بڑے ڈھیر سے لگ گیے .

    نتیجہ بحث:

    عہد رسالت مآب -ص- میں سونے چاندی کے سکوں اور ٹکڑوں کو زر کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا.--- اس کی شرعی حیثیت کے بارہ میں اردو اور انگلش  زبانوں میں علیحدہ سے   گفتگو کی جا چکی ہے،جس کا لنک نیچے دیا گیا ہے  --- یہاں اپنے موضوع کی اعتبار سے فلوس پر بات ہو رہی ہے.    اوپر بیان کردہ اور جملہ مفاسد سے قطع نظر، آجکل فلوس اور اس سے ملتی جلتی کرنسی - جیسےکاغذ کے نوٹ وغیرہ - پر سونا چاندی کی کرنسی جیسے شرعی احکام صادر ہوتے ہیں .مثلاّ زکات کا نصاب ،وصولی ، مصارف اور ادائیگی-محاصل کی وصولیاں، صدقه و خیرات کی ادائیگی ،حق مہر اور دیت  وغیرہ کی ادائیگی -بیت المال کے معاملات ، سودی لین دین،حوالہ،کفاله  غررکے معاملات وغیرہ وغیرہ .

    نوٹ: مصنف کےدوسرے بلاگ پر بھی یہ مضمون انگریزی/اردو زبانوں میں ہے. FULUS AND OTHER MONIES.فلوس اور زر

    http://talibhaq.blogspot.com

    Stay Connected To Get Free Updates!

    Subscribe via Email

    Follow us!

    0 comments:

    Post a Comment