Leave a Comment

سود "ربا" کی تعیبرت -٤،فقہ حضرت عثمان (رض)

سود "ربا" کی تعبیرات حضرت عثمان (رض) کے دور میں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: چوہدری طالب حسین
حوالہ

. حوالہ سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کے ذمہ واجب الادا قرض کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل ہو جاۓ
محال علیہ کا دیوالیہ پن.
١. جب ایک شخص کے ذمہ واجب الادا قرض دوسرے شخص کی طرف منتقل ہو جاۓ اور قرض خواہ بھی اس سے اتفاق کرے تو ایسی صورت میں اگر محال علیہ شخص قرض کی ادائیگی سے پہلے ہی دیوالیہ ہو جاتا ہے،تو قرض خواہ کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنا قرض حاصل کرنے کے لیے اصل مقروض سے

تقاضا کرے. اس لیے کہ اس صورت میں اس کی حیثیت ایک ایسے عقد معاوضہ کی ہے جس میں دو معاملہ کرنے والوں میں سے کسی ایک کو ادائیگی نہ ہوئی ہو،اس لیے اس  معاہدہ کو فسخ کرنے کا حق حاصل ہے.یہ بالکل ایسے ہی ہے،جیسے کسی نے کپڑے کا معاوضہ وصول کر لیا ہو،لیکن کپڑا اس کے حوالے نہ کیا ہو. چنانچہ قرضوں کی اس طرح ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقلی کے بارے میں حضرت عثمان کا ارشاد ہے کہ کسی مسلمان کے مال کوضائع نہیں کیا جانا چاہے. (فقہ حضرت عثمان-ص-١٨٠ -المحلی١٠٩/٨،المغنی ٥٢٦/٤)
شرکہ:-کاروبار میں اشتراک (فقہ حضرت عثمان -ص-٢٥٨)
٢. مضاربت کی بنیاد پر کاروبار میں اشتراک جسے اصطلاح میں"القرض" کہتے ہیں،یہ ہے کہ طرفین کسی کاروبار میں اس اصول کی بنیاد پر اشتراک کریں،کہ سرمایہ ایک فریق کا ہو گا اور محنت دوسرا فریق کرے گا.اس صورت میں ان کے درمیان نفع کی تقسیم اس شرط کے مطابق ہو گی جو ان کے درمیان طے ہو گی
.جب کہ خسارہ سرمایہ فراہم کرنے والے فریق کے کھاتے میں جاۓ گا. مضاربت کی بنیاد پر اشترک شریعت میں جائز ہے. چنانچہ حضرت عثمان بن عفان(رض) اپنا مال مضاربت کی بنیاد پر اس شرط پر کاروبارکے لیے دیا کرتے تھے کہ نفع کی تقسیم دونوں فریقوں میں مساوی ہو گی(موطاامام مالک-رح- وغیرہ-فقہ حضرت عثمان -ص-٢٥٨)اور خسارہ صرف مال فراہم کرنے والے فریق کو یعنی انہیں برداشت کرنا ہو گا.
قرض کی ادائیگی .
٣. اگر کوئی شخص کسی سے قرض لے اور اس میں اس سے بہتر یا اس سے زائد کی واپسی کی شرط نہ ہو تو اس کے لیے اس سے بہتر واپس کرنا جائز ہے اور اسے ادائیگی کی اچھی صورت شمار کیا جاۓ گا (المحلی ٧٨/فّقه حضرت عثمان -ص-٣٥٣ )
٤. جب کوئی شخص کسی کو قرض دے اور واپسی کے لیے مدت مقرر کر دے تو قرض لینے والے کے لیے مدت کے اختتام سے قبل کی ادائیگی جائز ہے. حضرت عثمان نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اگر مکاتب وقت سے پہلے کتابت کی رقم اپنے آقا کو ادا کر دینا چاہے تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے. جب متعلقہ آقا نے وقت سے پہلے رقم لینے سے انکار کر دیا تو حضرت عثمان نے یہ رقم بیت المال میں رکھوا دی اور مکاتب کو بدل کتابت سے بری الزمہ قرار دے دیا. نیز آپ نے حکم بھی دیا کہ آقا کو بیت الما ل سے اپنے وقت پر قسط ادا کی جائیں (عبدالرزاق ،سنن البیہقی ،کنزالعمال،المغنی ٤٧٢/٩ -فقہ حضرت عثمان -ص-٣٥٣،٢١٥ )
(ب)رباالفضل .(فقہ حضرت عثمان-رض-٢٠٨)
٥. اس سے مراد یہ ہے کہ "اموال ربویہ "(سونا،چاندی، گیہوں،جو ،کھجور اور نمک ) میں سے کوئی چیز خود اپنی جنس کے بدلے میں کمی بیشی کے ساتھ فروخت کی جاۓ ،چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان(رض) بیع صرف(سونے کو سونے کے اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں فروخت کرنے کو)ناجائز سمجھتے تھے(کنزا لعمال-٤-ص-١٩٠)کیونکہ بالعموم لوگ پورا پورا وزن کرنے اور دست بدست لینے دینے میں سستی اور تساہل کے عادی ہوتے ہیں .
٦. حضرت عثمان کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ سونے کو سونے ،چاندی کو چاندی،گندم کو گندم،جو کو جو،کھجوروں کو کھجوروں اور نمک کے بدلے میں کمی بیشی کے ساتھ لینا دینا جائز نہیں ہے. چاہے یہ لین دین دست بدست ہی کیوں نا ہو،اور نہ ہی ان چیزوں میں ایک کا دوسرے سے ادھار لین دین کرنا جائز ہے،خواہ برابر ،برابر کیوں نہ ہو، جو شخص ایسا کرتا ہے،وہ سود لیتا ہے
اور اس کا سودا منسوخ قرار پاتا ہے(المجموع-١٠-ص-٣٥)
سود"ربا "کے مفھوم پر مزید تحقیق ضروری ہے. ---آئندہ " فقہ حضرت علی(رض) پر بات ہو گی.

Stay Connected To Get Free Updates!

Subscribe via Email

Follow us!

0 comments:

Post a Comment