2 comments

اصول درایت حدیث

    اصول درایت حدیث ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریری: چوہدری طالب حسین

    جس چیز کی قدرو قیمت زیادہ ہو ملاوٹ اور جعلسازی کے خطرات اسی میں زیادہ ہوتے ہیں. حدیث کا ادب مسلمانوں کےہاں بنی نوع انسان کی اصلاح و فلاح کےلیے عظیم سرمایہ ہے. لیکن کچھ لوگوں نے اس میں ملاوٹ کی بار ہا کوششیں کیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ علماےءاسلام نے ایسے طرق واضح کئے، جن سے فساد کا راستہ روکا جا سکے . متاخرین نے اس عمل کو جاری رکھا . یہاں ہم اصول روایت اور درایت کے بارے میں کچھ گفتگو
    کریں گے.


    اصول نقد حدیث کے پس منظر میں،"درایت" کی اصطلاح معاصر اہل علم کے ہاں دراصل ان عقلی اصولوں کی نمائند گی کرنے لگی ہے جنہیں فقہاء نے اپنی فقہی و احکامی مباحث میں متن حدیث کی جانچ پڑتال کے لیے استعمال کیا ہے. امام ابو حنیفہؒ ان اولین فقہاء میں سے ہیں جنہوں نے متن حدیث کی جانچ پڑتال کے لیے ایسے اصولوں کا بھرپور استعمال کیا جنہیں آج "اصول درایت " سے تعبیر کیا جاتا ہے. امام موصوف کی طرف ان اصولوں کی نسبت نہ صرف بعد کے حنفی اصولیوں نے کی ہے بلکہ خود امام صاحب کے مایہ ناز شاگرد امام ابو یوسفؒ کی تصنیفات میں ان اصولوں کے استعمال اور ان کے معیاری ہونے پر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے آثارسے رہنمائی لینے کے سلسلہ میں بکثرت مواد موجود ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ اصول امام صاحب اور ان کے اصحاب ہی کے اخذ کردہ ہیں جبکہ بعد کے حنفی اصولیوں نے ان کی مزید تہذیب و تنقیح کا کام کیا ہے.
    اس سلسلہ میں امام ابو یوسف ؒ کی تصنیفات کو بنیاد بنا کر ان کی عبارتوں سے براہ راست ایسے اصول تلاش کیے گنے ہیں جنہیں بلاشبہ نقد حدیث کے درایتی اصول قرار دیا جا سکتا ہے ،چناں چہ اپنے مقالے "اصول درایت حدیث اور امام ابو یوسف -رح" میں مقالہ نگار" (مبشر حسین" بین العقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ) اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ حنفی فقہاء کے ہاں سند معتبر ہونے کے باوجود خبر واحد کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ:

    • ١. خبر واحد قرآن مجید کے خلاف نہ ہو .
    • ٢.خبر واحد سنت معروفہ کے خلاف نہ ہو.
    • ٣.خبر واحد عموم بلوی کی قبیل سے نہ ہو.
    • ٤.خبر واحد ایسی نہ ہو جس کے خلاف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل ثابت ہو.(فکر و نظر -ستمبر ٢٠١١ ع)

    درایت کا لغوی معنی.


    درایت کا لغوی معنی ہے سمجھ بوجھ ،معرفت اور ادراک، جیسا کہ راغب اصفہانیؒ اپنی کتاب المفردات ،میں لکھتے ہیں .

    ترجمہ. خوب کوشش کے بعد کسی چیز کو معلوم کرنا،درایت،کہلاتا ہے.
    درایت کا اصطلاحی معنی .
    متقدمین کے ہاں اس لفظ کو اصول حدیث کی کسی اصطلاح کے طور پر استعمال کرنے کی مثال نہیں ملتی،تاہم متاخرین مثلاّ ابن الاکفانی ،عزالدین ابن جماعتہ،امام سیوطی،حاجی خلیفہ وغیرہ نے اسے فہم حدیث اور نقد حدیث کے عمومی اصولوں کے حوالے سے بیان کیا ہے .

    درایت کا تعلق فہم حدیث کے ضابطوں سے ہے یا نقد حدیث کے اصولوں سے، یا دونوں طرح کے اصولوں سے؟ اس سلسلہ میں اہل علم کی دو طرح کی تعریفیں ملتی ہیں. ایک کا تعلق فہم حدیث سے ہے جب کہ دوسری کا تعلق فہم حدیث اور نقد حدیث دونوں سے ہے. دوسرے لفظوں میں اولالذکر کا تعلق صرف مروی کی معرفت سے ہے جب کہ ثانی الذکر کا تعلق راوی اور مروی دونوں کی معرفت اور اس کے اصولوں سے ہے. آئندہ ہم ان دونوں تعریفوں کی مختصر تفصیل ذکر کریں گے.


    ١. درایت حدیث بمعنی فہم حدیث.

    حاجی خلیفہ نے علوم حدیث کے ضمن میں"علم درایت حدیث" کو فہم حدیث کا علم قرار دیا ہے، چنانچہ آپ علم حدیث کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہویے لکھتے ہیں.
    علم حدیث کو بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے،یعنی علم روایتہ الحدیث اور علم درایتہ الحدیث. علم داریتہ الحدیث سے مراد وہ علم ہے جس میں احادیث کی نبی کریمﷺ کی طرف اتصال کی کیفیت کے حوالے سے بحث کی جاتی ہے. یعنی اس سلسلہ میں رواة حدیث کے احوال ،ضبط ،عدالت کو زیر بحث لایا جاتا ہے،نیز یہ بحث کی جاتی ہے کہ سند متصل ہے یا منقطع. اور اسی سے ملتی جلتی دوسری چیزیں اس میں شامل ہیں .یہ علم،اصول حدیث، کی اصطلاح سے معروف ہے،جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے . اور جہاں تک علم حدیث کی دوسری قسم علم درایتہ الحدیث کا تعلق ہے تو اس بارے میں واضح ہوکہ یہ وہ علم ہے جس میں حدیث کے متن کا معنی و مفہوم اور اس کی مراد کو عربی قواعد،شرعی ضوابط اور نبی کریم(ﷺ) کے احوال کی مطابقت کے پہلوؤں کو زیر بحث لایا جاتا ہے.(فکرو نظر)

    ٢. درایت حدیث بمعنی فہم حدیث اور نقد حدیث .

    امام سیوطی نے تدریب الراوی میں علم الحدیث کی دو قسمیں بیان کی ہیں یعنی :
    ١. علم الحدیث خاص بالروایتہ. یہ علم نبی کریمﷺ کے اقوال و افعال کی نقل و روایت کرنے، ان کے ضبط کرنے اور ان کے الفاظ کو تحریر میں لانے پر مشتمل ہے اور.
    ٢. علم الحدیث خاص بالدرایتہ: یہ علم ان امور پر مشتمل ہے جن کے ذریعے روایت کی حقیقت ،اس کی شرط،انواع اور احکام ،راویوں کے حالات اور ان کی شرطیں اور مرویات کی اقسام وغیرہ معلوم کی جاتی ہیں.
    اس سے معلوم ہوا کہ درایت میں فہم حدیث کے اصول و ضوابط کے علاوہ نقد حدیث کے بھی تمام اصول زیر بحث لائے جاتے ہیں، خواہ ان کا تعلق سند و رواة سے ہو یا متن سے.
    بعض اور اہل علم نے بھی روایت و درایت کے حوالے سے قریب قریب یہی تعریفات نقل کی ہیں .(فکرو نظر)


    Stay Connected To Get Free Updates!

    Subscribe via Email

    Follow us!

    2 comments:

    1. بہت معلوماتی مضمون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصول درایت حدیث کو جس خوبصورت انداز سے اپ نے بیان فرمایا ہے۔۔ اس سے قاری کو اصول حدیث سمجھنے میں بہت اسانی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیز اپ سے گزارش ہے کہ اس طرح کےدیگر مضامین بھی شائع کریں تاکہ ہم مستفید ہو سیکیں۔

      ReplyDelete
    2. This comment has been removed by the author.

      ReplyDelete