Leave a Comment

برطانیہ میں اسلامی قوانین

 مضمون از. چوہدری طالب حسیں 

برطانیہ میں مسلمان دو سے تین فی صد آبادی کے ساتھ اقلیت میں ہیں. کینڈا کی طرح برطانیہ میں بھی مسلمانوں کا درینہ مطالبہ ہے کہ مسلمان قوانین کو قانونی درجہ دیا جاۓ . تاہم یہاں چند معاملات میں اسلامی قوانین کا اعتبار کیا جاتا ہے.

سات فروری ٢٠٠٨ کو ڈاکٹر راوں ولیمز اس وقت ذارئع ابلاغ کا سب سے نمایاں موضوع بن گئے جب انہوں نے رائل کورٹ آف جسٹس انگلینڈ میں برطانیہ میں سول اور مذہبی قانون(Civil and Religion Law) کے موضوع پر لیکچر دیا. یہ ایک طویل لیکچر تھا. اس میں ان کے چند وہ جملے جو بعد ازاں عالمی سطح پر موضوع بحث بن گئے، کچھ یوں تھے.

برطانیہ کے چند علاقوں میں کچھ اسلامی قوانین کو شامل نہ کرنا اب ممکن نہیں رہا .شادی اور مالیات جیسے معاملات میں اسلامی شریعت کی جگہ موجود ہے. برطانیہ کو اس امر کا سامنا کرنا چاہے کہ کچھ شہری خود کو برطانیہ کے قانون سے وابستہ نہیں کرتے . اسلامی شریعت کے قانون کے کچھ حصّے اختیار کرنے سے برطانیہ میں سماجی ارتباط پیدا کرنے میں مدد ملے گی. ہو سکتا ہے کہ بعض مسلمان اپنے ازدواجی قضیوں یا مالیات سے متعلق مسائل کا حل شرعی عدالت سے کروانا چاہیں.

اس موقع پر ان سے پوچھے گئےسوالات میں سے ایک یہ بھی تھا: "ہمیں ایک مسیحی کی حیثیت سے اسلام کو جگہ دینی چاہیے یا نہیں"؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا، 

ہمیں مسیحی کی حیثیت سے اسلام کو جگہ دینی چاہیے یا نہیں، مجھے  اپنے مسلمان ہمسایہ سے ضرور محبت کرنی چاہیے ؟

ہاں بغیر کسی شرط یا تذبذب کے .(یعنی ان کاجواب ہاں میں تھا ).

ان سے یہ بھی پوچھا گیا : "کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر قومی نصاب میں اسلامی تاریخ کا کچھ حصہ شامل کر لیا جاۓ تو اس اس سے اسلام کے ثقافتی پہلو کو سمجھنے میں زیادہ مدد ملے گی؟ تو انہوں نے اپنا جواب ان الفاظ سے شروع کیا " متوقع سرخیوں کو ذہن میں رکھیے گا، آرچ بشپ نے مسلم تاریخ سکولوں میں پڑھانے
کا مطالبہ کر دیا"

راون ولیمز آرک بشپ آف کنٹربری نے اپنے ایک خطاب میں قانون کے مذہبی پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ کہا کہ عدالتوں میں لوگوں کے مذہبی اعتقادات اور ان پر مبنی قوانین کو ریاستی سطح پر قانون کا درجہ دینے کی ضرورت ہے .

وہ در اصل اس تضاد کی طرف اشارہ کر رہے تھے جب مذہبی قوانین کا اعتبار نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مذہب اور قانون میں فرق کرنے لگتے ہیں. اسی طرح جب عدالتیں مذہبی قوانین کا لحاظ نہیں کرتیں تو وہ یا تو مذہب اور قانون میں تضاد کو قبول کر کے دوہری زندگی گزارتے ہیں یا ایسے قانونی حیلے تلاش کرتے ہیں جس سے وہ مروجہ قانون کی پابندی سے بچ جائیں . حال ہی میں اس کے لیے "انگریزی شریعت" کی اصطلاح سامنے آئی ہے جو بظاہر برطانوی قانون کی پابند ہے لیکن اصل میں وہ برصغیر یا پاکستان میں رائج حنفی مذہب پر مبنی ہے.

آرک بشپ کے بیان کے حق میں کم اور مخالفت میں زیادہ لکھا گیا. جولائی ٢٠٠٨ میں لارڈ فلپس ورتھ مٹ روارس کے چیف جسٹس نے آرک بشپ کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کے لیے شریعت اور کامن لاء کے بنیادی اصولوں میں کوئی تضاد نہیں. برطانوی قانون مسلمانوں کو اپنے مقدمات شریعت کے مطابق حل کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا . اس بحث میں عیسائیوں ، سیکولر دانشوروں اور حقوق انسانی کے مسلمانوں رہنماؤں، سب نے حصہ لیا.اس کی مخالفت پر بہت سے لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا. کیونکہ آرک بشپ کے بقول عیسائیوں اور یہودیوں کو اپنے معاملات اپنے مذہبی قوانین کےمطابق طے کرنے کا پہلے ہی حق حاصل تھا. شخصی قوانین کی یہودی عدالتیں "بیت دین" کے نام سے عرصہ سے کام کر رہی ہیں، اسی طرح عیسائی مذہبی ادارے بھی شادی بیاہ اور دیگر مذہبی معاملات میں عدالتی اختیارات کے تحت کام کر رہے ہیں. آرک بشپ کے مخالفین میں ایک تو وہ گروہ شامل تھا جو اس بحث سے فائدہ اٹھاتے ہویے اسلام کے خلاف معاندانہ تبلیغ میں مصروف ہوگیا. دوسرے اس میں وہ لوگ شامل تھے جو قانون کو مذہب اور اخلاقیات سے الگ رکھنے کے قائل تھے . ان کے نزدیک شریعت کو اختیار کرنے سے ریاست کی حاکمیت اور قانون کی بالا دستی کمزور ہوتی ہے. اس طرح ملک میں قانونی دوئی اور تضاد کو ہوا ملتی ہے. لارڈ فلپ نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ مذہبی ادارے ملکی قوانین کے ماتحت کام کریں گے . اس سے عام عدالتوں کا اختیار بھی کم نہیں ہو گا اور مذہبی شعور کی حفاظت بھی ہو گی مثلاّ برطانوی عدالت سے طلاق کی کاروائی مکمل ہونے کے بعد ایک یہودی شخص ،بیت دین ،کی طرف رجوع کر کے وہاں سے اس طلاق کی توثیق حاصل کر سکتا ہے.

 مسلمانوں کا کہنا ہے کہ، عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ بینڈیکٹ نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تحفظ ناموس رسالت کے قانون کو ختم کرے، مگر پوپ نے توہین مسیحت کے قانون کے خاتمے کا کھبی تقاضہ نہیں کیا حالانکہ اس قانون کے تحت صرف حضرت عیسیٰ(ع) کی توہین پر ہی سزاۓ موت نہیں دی جاتی ،بلکہ پادری کی توہین بھی اس قانون کے تحت اتنی ہی مستوجب سزا ہے. مسلمان اپنے عقیدے اور ایمان کی بنیاد پر کسی بھی نبی اور پیغمبر بشمول حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ(ع) کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا .

Stay Connected To Get Free Updates!

Subscribe via Email

Follow us!

0 comments:

Post a Comment