Leave a Comment

کن فیکون تکوین کائینات

  کن فیکون تکوین کائینات          تحریر: چوہدری طالب حسین
کن فیکوں ---مقام تکوین کائنات "بے مقام" کائناتوں کا کچھ بھی مطلق نہیں اضافی ہے ......مگر مطلق ہی مطلق ہے کائنات کا آغاز کب ہوا، اس بارے میں قیاس آرئیاں ہوتی رہی ہیں ،مگر اب ریاضی کی مدد سے اس بات پر اتفاق را ے ہے کہ ہماری کائنات آج سے تیرہ ارب ستر کروڑ (٣،٧ ارب)  یا پندرہ ارب سال پہلے ایک بہت بڑے د ھما کے سے وجود میں آی .- وہ مقام جہاں پر یہ دھماکہ ہوا پلانک لینگتھ کے نام سے جانا جاتا ہے. بیسویں صدی کے


آغاز میں مشہور ساینس دان Scientist  پلانک نے پلانک سپیس اور ٹایم space and time کے مقام کو متعین کیا تھا کہ  یہ مقام زمان اور مکان کی وہ  آخری حد ہے جس کے پیچھےعدم محض ہے. پلانک نے Space یعنی مکان اور Time  یعنی زمان کی آخری حدیں بھی بتائیں. 

١٩٧٠ کے بعد سا ئنسی حلقوں میں چہ مگوییاں ہونے لگیں کہ ٹائم  اور سپیس Time and space کی اس آخری حد کے پیچھے بھی"کچھ" موجود ہے......جاننا چاہے کے وہ کیا ہے! اس تجسس میں TOE یعنی Theory of Every thing کی تلاش کا عمل بھی شامل تھا جو کائنات کی چاروں قوتوں یعنی Electromagnetic Force----Weak Force----Strong Force----Gravity کو اکائی کے مقام پر دیکھنا چاہتا تھا اور یہ مقام پلانک کی حد کے عقب میں تھا - یہی وہ زمانہ تھا جب سپر سٹرنگ تھیوری کی شروعات ہوئی. دو دہا ئیوں کے دوران میں سپر سٹرنگ تھیوری ،کامیابی اور ناکامی کے کئی مراحل سے گزرنے کے بعد بالا خر نوے کی دہائی میں ایک  ایسا  منظر نامہ دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئی جس میں چاروں قوتیں باہم آمیز ہوتے دکھائی دے رہی تھیں. پھر جب ایم تھیوری نے(جو گیارہ ابعاد کی حامل ہے) سٹرنگ تھیوری کے بطن سے جنم لیا تو منظر نامے کے خدو خال اور بھی شوخ ہو گنے . اب خلا کہ پلانکٹائم  اور سپیس ٹائم کے عقب میں ایک Ultra-Microscopic بھی ہے جس میں روایتی زمان اور مکاں، آ گے  پیچھے، او پر اور نیچے کی سمتیں موجود نہیں---یہ بے مقام "مقام" ایک کالی شکتی Dark Energy سے لبریز ہے جس میں انرجی کا ایسا طوفان برپا ہے  جو اصلا Energy or chaos ہے. مشور ساںیس دان برائن گریں Brain Greene نے اس Ultra Microscopic Level کی نشان دیہی ان الفاظ میں کی ہے.

Below the planck length,space becomes unrecognizably tumultuous due to quntum Jitters, a seething boling cauldron of frenzied fluctations. The fabric of the Cosmos

مراد یہ ہے کہ پلانک لینگتھ کے نیچے Cosmos کی چادر، مشتعل سلوٹوں سے بھرا ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جس پر زمان اور مکاں کا اطلاق نہیں ہو سکتا .لہٰذا یہ Spaceless بھی ہے اور Timeless بھی.

.... سٹرنگز تھیوری والوں نے" بے مقام "----کہا اسے سٹرنگ تھیوری والوں نے اس بے مقام "مقام" پر سٹرنگز یعنی vibrating Filaments of Energy کا سراغ لگایا ہے اور ساتھ ہی Branes کو بھی دریافت کیا ہے-- سٹرنگ ایک بعد  dimension کا حامل یعنی One dimensional ہے جبکہ برین  Brane مختلف ابعاد کے حامل ہیں . ان مختلف ابعاد والے Branes میں تین ابعاد کا حامل ایک برینBrane اس لیے قا بل ذکر ہے کہ ہماری کائنات اسی برین میں بند ہے . خود اسی تین مکانی ابعاد کے حامل برین کے اندر ایک بعد کے حامل سٹرنگز دو صورتوں میں موجود ہیں یعنی کھلے   اور بند سٹرنگز open strings and closed strings . اس برین کی داخلی سطح میں پکڑنے کی بے پناہ قوت ہے . لہذا کھلے سٹرنگ کی جڑ والا حصہ اس میں پیوست ہے اور اکھڑ نہیں سکتا جبکہ سٹرنگ کا دوسرا حصہ آزاد ہے اور روشنی کا مظاہرہ کرتا ہے، مگر یہ روشنی اس برین سے باہر نہیں جاسکتی. اس لیے کہ پابند سلاسل ہے دوسری طرف بند سٹرنگز برین کی داخلی سطح میں پیو ست نہیں ہیں، اور اصلا کشش ثقل یعنی Gravity کی تحویل میں ہیں. سو جہاں روشنی کا پارٹیکلPhoton برین سے باہر نہیں جا سکتا، وہاں کشش ثقل کا پا رٹیکل یعنی graviton برین سے باہر نکل کر دیگر ابعاد یعنی dimensions میں آ جا سکتا ہے. یہ ایک بے حد خیال انگیز نکتہ ہے-- ساتھ ہی یہ نکتہ بھی قا بل غور ہے کہ روشنی فرق و تفریق کا منظر نامہ پیش کرتی ہے، جبکہ کشش ثقل،انسلاک،وحدت اور محبت کا ا علا میہ ہے (مزید وضاحت ذیل میں ہے)

اپنی کتاب بعنوان
The Astonishing Hypothesis  میں فرانس کرک نے لکھا ہے کہ ہمارے دیکھنے کے عمل میں" ایک نظر نا آنے والی جگہ " بھی ہوتی ہے. اس جگہ کو اس نے Blind Spot کا نام دیا ہے. انسانی دماغ کا یہ وتیرہ ہے کے وہ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اس نظر نا آنے والی جگہ کے اندھے سوراخ کو بھر دیتا ہے. لہذا بصارت کے عمل میں کوئی ناہمواری یا انقطاع نظر نہیں آتا. تاہم اس Blind spot کی مو جودگی سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا. ثبوت اس کا یہ ہے کہ آپ اگر اپنی دائیں آنکھ بند کر کے اور اپنی انگشت شہادت کو ناک سے ایک فٹ کی دوری پر عمودا کھڑاکر کے انگلی کے ناخن پر اپنی نظر مرکوز کر دیں  پھر نظر کو اس مقام پرمرکوز رکھتے ہو ے  اپنی انگلی کو بائیں جانب آہستہ آہستہ  ہٹائیں تو ایک مقام آ جاتے گا جہاں آپ کی انگلی کا ناخن نظر کی زد سے غائب ہو جاے گا مگر چند ہی لمحوں کے بعد دوبارہ دکھائی دینے لگے گا . ناخن کے غائب ہونے والے مقام کو اس نے Blind space کا نام دیا ہے اور کہا  ہے کہ یہی وہ مقام   ہے جسے عام زندگی میں انسانی دما غ بھر دیتا ہے ....ہم اس مقام کو جو ایک اندھا سوراخ ہے، با آسانی گہراو  یا Abyss بھی کہ سکتے ہیں اور یہ نتیجہ مرتب کر سکتے ہیں کہ خود "تسلسل "کے اندر انقطاع موجود ہے جسے ہمارا شعور جست بھر کر عبور کر جاتا ہے.

تخلیق کائنات کے سلسلے میں طبیعیات نے Big bang کا جو تصور پیش کیا ہے اس میں بھی انقطاع اور جست کا منظر صاف نظر آتا ہے. طبیعیات  کے مطابق تخلیق کائنات کے عمل میں پہلی جست زیرو ٹائم سے پلانک ٹائم کی طرف لگی تھی اور اس جست نے اس گہراؤ یا  Rupture کو عبور کیا تھا جو ان دونوں کے درمیان تھا.

اقبال نے سورہ (٢٤-٣٥) کے حوالے سے بحث کی ہے مگر اقبال کے زمانے میں ابھی طبیعیا ت نے ایٹم کی کنہ میں جھانک کر امکانات کی اس لا محدودیت کا ادرک نہیں کیا تھا جو بیسویں صدی کے ربع آخر میں سامنے آئ . اقبال نے صرف  الیکٹروں کی بات کی اور روشنی پر خود کو مرتکز کیا. مگر آج ہم جانتے ہیں ( یہ ڈاکٹر وزیر آغا صاحب نے لکھا ہے مگر جرار جعفری صاحب نے کہا ہے کہ یہ ابھی  unproven  ہے)کہ کائنات کے اجزاء میں سب سے بنیادی جزو سٹرنگ ہے جو نوکدار پارٹیکل نہیں. وہ ایک بند چھید (Closed Loop) ہے جس کے اندر صرف سوت یا Filament  ہے .کائنات کے مکانی پارچہ یعنی  Spatial Fabric کا سٹرنگز  کے دہاگوں سے ہٹ کر کوئی وجود نہیں ہے. سٹرنگ کی اس دنیا میں سات فاضل ابعاد Dimensions جس خاص اقلیدسی شکل میں  Curled-up روپ دھارے ہونے ہیں اسے  Calabi-Yau Space کا نام ملا ہے. جب بیگ بینگ سے ہماری اس کائنات کا آغاز ہوا تو گیارہ ابعاد میں سے چار کو آزاد کیا گیا اور باقی سات کو سٹرنگ کے اندر روک لیا گیا. چانچہ ایک طویل عرصہ تک طبیعیات نے چار ابعاد  کی حامل کائنات کے ادراک تک ہی خود کو محدود رکھا مگر اب وہ اس  مقام"کی ایک جھلک پانے پر قادر نظر آنے لگی ہے جو سات فاضل ابعاد کی آ ما جگاہ ہے. تاہم طبیعیات جمالیاتی اور مذہبی تجربے سے گزرے بغیر یا یوں کہہ لیجیے کہ اپنے فراہم کردہ و زن Vision میں مذہبی اور جمالیاتی تجربات کو آمیز کیے بغیر اس مقام کو چھونے میں ناکام ہے جو بیک وقت Finite  بھی ہے اور  Infinite بھی.

دوسرے علوم سے تعلق رکھنے والے اہل علم نے بھی ساینسی تجربات وغیرہ کی روشنی میں اپنے علوم کو وسعت دی ہے. اور انہیں ایسے ہی نظریات و  تجربات کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے. Heinz R. Pagels نے لکھا ہے.

کائنات کے حروف یعنی پارٹی کلز particles  اور لسانی قواعد کے ماتحت جملوں ،کو ماہر لسانیات سو شیور   Saussure نے اس امر کو اور زاویے سے بیان کیا  ہے  وہ لانگ اور  پا رول Langue and Parole کی مدد سے گرامر  یا سسٹم  System اور اس کی کارکردگی کو اجاگر کرتا ہے،چامسکی نے اس کے لیے Competence اورPerformance کے الفاظ استعمال کیے ہیں. سو شیور کے مطابق لانگ غائب میں  کہیں موجود ہوتی ہے . اس کے ہونے کا اگر کوئی ثبوت ملتا ہے تو صرف اس کی کارکردگی یا پر فار مینس میں  ملتا ہے.مثال کے طور پر  فٹ بال کے کھیل کے سسٹم یعنی اس کی لانگ نظروں سے اوجھل ہوتی ہے مگر وہ  کھیل کے ہمہ وقت بننے اور ٹوٹتیے ہوتے  جملوں میں موجود ہوتی ہے. اگر کھیل کا ایک جملہ فٹ بال کی گرامر کی خلاف ورزی کرے تو ریفری سیٹی بجا کر فاول کا ا علان  کر دیتا ہے. یہی حال اس کائنات کا ہے جس میں جملوں کی ہمہ وقت بنتی بگڑتی صورتوں کا کوئی انت نہیں ہے .مگر جس کے عمق میں  تخلیقیت بہ طور لانگ سدا موجود رہتی ہے وہ نہ صرف غیب میں ہوتی ہے بلکہ خود غیب ہے .مگر اس کے ہونے کا ثبوت اس کی کارکردگی سے ملتا ہے (از ڈاکٹر وزیر آغا -تخلیقی عمل-جستجو وغیرہ )

ڈاکٹر طاہر القادری نے بگ بینگ   کی تھیوری کو  مندرجہ ذیل قرآنی آیات کی روشنی میں بیان کیا ہے. اس ضمن میں رتق -فتق کے الفاظ کی تشریح بھی کی ہے.

١. یقول له کن فیکوں --جب وہ  کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اسے صرف یہی حکم دیتا ہے، ہو جا، پس وہ ہو جاتا ہے.--مریم ٣٥-19

٢.ان السموت و ا لا رض کانتا رتقا ---جملہ آسمانی کائنات اور زمیں(سب) ایک اکائی Singularity  کی شکل میں جڑے ہوے تھے . ا لا انبیاء-٣٠.٢١ ------لکھتے ہیں ان الفاظ میں بگ بینگ سے پہلے کا ذکر کیا گیا ہے. پھر اس کے بعد پھوٹنے اور پھیلنے کا عمل شروع ہوا،جسے کلام مجید نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے.( ففتقنا ھما) پس ہم نے انہیں پھا ڑ کر جدا کر دیا --ا لا انبیاء  ٣٠.٢١.---- یاد رہے قران مجید کوئی سائنس  کی کتاب نہیں ہے. نظریات و تجربات بدلتے رہتے ہیں -- لیکن قرآن مجید کا اس میں یہ پیغام  اور اصول پایا جاتا ہے کے اسرار -سر بستہ راز تلاش کرو - یہی عارفانہ تجربہ  روحانی واردات اور سائنس کے علوم کی اساس ہے.( نوٹ . یہ مختصر سا مضمون استدلالی ہے ،سا نسی  تحقیق کرنے والے اصل ماخذ سے رجوع کریں

Stay Connected To Get Free Updates!

Subscribe via Email

Follow us!

0 comments:

Post a Comment