Leave a Comment

ناسمجھ لوگ اور قران کریم کا حکم


تحریرو تقریر  کا عمل تب ہی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے،  جب اس کا مقصد اور طریقہ بھی درست ہو، بصورت دیگر اس کے مفاسد بہت زیادہ ہیں ، شریعت اسلامیہ میں یہ اصول ہے کہ جس  کام کے نقصانات فائدوں سے زیادہ ہوں وہ ممنو ع ہے . یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ ہم کب سے "خطیبانہ یلغار " کی زد میں ہیں ۔ درخت اپنے پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے . ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مذہبی اور سیاسی اجتماعات میں کیا کچھ
کہا
جاتا ہے اور عملی طور کیا ہوتا ہے.  اس مرض کا شکار ہم،یعنی پاکستانی ہی نہیں بلکہ پورا اسلامی معاشرہ اس کی زد میں ہے.پروفیسرڈاکڑماجد عرسان الکیلانی ، القریٰ یو نیورسٹی ،سعودی عریبہ اس ضمن میں کیا کہتے ہیں۔
 ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے
"میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو تسلیم کرتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے .تبدیلی اس کائنات کے قوانین کا حصہ ہے . اللہ تعالیٰ نئی نئی تخلیق کے کام میں ایک لمحہ کے لیے بھی وقفہ نہیں کرتا.  كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِى شَأۡنٍ۬ (الرحمن-٢٩)-ہر آن اسے ایک نیا کام ہے-وہ کام جو آج(مراد لمحہ) تخلیق کیے گئے ،وہ گزشتہ کل کے کام سے مختلف ہوتے ہیں . وہ حالات جوایک تخلیق کے خاتمہ کا باعث بنے ،وہ نئی تخلیق میں پیدا نہیں کیے جاتے--قرآن کہتا ہے۔ :
قُل لَّآ أَمۡلِكُ لِنَفۡسِى ضَرًّ۬ا وَلَا نَفۡعًا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ‌ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ‌ۚ إِذَا جَآءَ أَجَلُهُمۡ فَلَا يَسۡتَـٔۡخِرُونَ سَاعَةً۬‌ۖ وَلَا يَسۡتَقۡدِمُونَ۔ترجمہ: کہہ دومیں اپنی ذات کے برے اور بھلے کا بھی مالک نہیں مگر جو الله چاہے ہر امت کا ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آتا ہے تو ایک گھڑی بھی دیر نہیں کر سکتےہیں اور نہ جلدی کر سکتے ہیں۔۔ سورۃ یونس ایت 49میں اسے بھی تسلیم نہیں کرتا کہ تاریخ میں عبرت ہے. ہمارے پاس تاریخ کی بیشمار مثالیں موجود ہیں کہ ایسے اسباب جو سابقہ امت کو پیش آے، وہ اگلی اُمت کے افراد کو بھی پیش آئے مگر انہوں نے ان سے کوئی سبق حاصل نہ کیا. ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
أَوَلَمۡ يَسِيرُواْ فِى ٱلۡأَرۡضِ فَيَنظُرُواْ كَيۡفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِهِمۡ وَكَانُوٓاْ أَشَدَّ مِنۡہُمۡ قُوَّۚةً۬ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُعۡجِزَهُ ۥ مِن شَىۡءٍ۬ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَلَا فِى ٱلۡأَرۡضِۚ إِنَّهُ ۥ كَانَ عَلِيمً۬ا قَدِيرً۬ا (٤٤) کیا انہوں نے زمین میں کبھی سیر نہیں کی تاکہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا حالانکہ وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے۔ اور خدا ایسا نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اس کو عاجز کرسکے۔ وہ علم والا (اور) قدرت والا ہے (۴۴)  ۔۔فاطر٤٢ ۔۔۔۔قرآن اس میں اضافہ کرتا ہے۔ وَسَوَآءٌ عَلَيۡہِمۡ ءَأَنذَرۡتَهُمۡ أَمۡ لَمۡ تُنذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُونَ۔ 
اور ان پر برابر ہے کیا آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ سورۃ یٰسین ایت 10۔
تاہم تاریخ میں ایسے قوانین موجود ہیں جو واقعات پر فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں اور انہیں ایسا رخ عطا کرتے ہیں جو ان قوانین کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے. ان قوانین کی خلاف ورزی یا ان سے موافقت ایسا ہی ہے جیسے تنفس،غذا  اور ریاح کے قوانین کی خلاف ورزی یا ان سے موافقت کی جاے. جو لوگ ان قوانین کے علم میں مہارت رکھتے ہیں،وہ زندگی پاتے ہیں اور اس کے مختلف پہلووں میں فوقیت حاصل کرتے ہیں. اسی طرح وہ قوم جواپنے امور ایسے افراد کے ہاتھ میں دے دیتی ہے جو معاشرہ کے عروج و زوال کے قوانین کا علم رکھتے ہیں اور ان کا اطلاق صحیح انداز میں کر سکتے ہیں،تو وہ افراد ہی قوم کو ترقی و فتح مندی سے ہم کنار کرتے ہیں. دوسری طرف اگر کوئی قوم اپنی باگ ڈور تقریر بازوں کے ہاتھ میں دے دیتی ہے جو جذبات سے کھیلتے ہیں تو وہ قوم ان امیدوں پر خوش رہتی ہے جو یہ مقرر ابھارتے ہیں لیکن جب چیلنج سامنے آتے ہیں تو انہیں سمجھ نہیں آتی کہ کیا کریں اور ناکامی ان کا مقدار بن جاتی ہے. رسول کریم(ص) نے فرمایا"تم ایک ایسے زمانے میں ہو جس میں عالم زیادہ ہیں اور خطیب کم ہیں. جس نے ان میں سے دس کو چھوڑ دیا، وہ ہلاک ہوا. پھر ایک ایسا زمانہ آنے گا جس میں اہل علم کم ہوں گے اور خطیب زیادہ ہوں گے. جو ان میں سے دس کے ساتھ هو لیا، اسے نجات نہیں ملے گی(مسند احمد،حصہ اول )‘‘
ہم نے دیکھا کہ کس طرح رسول کریم(ص) کا "علم و دانش "ابو جہل کی "خطابت" پر غالب آیا. ان دونوں شخصیات اور ان کی جماعتوں کے مقدرمیں کیا کچھ آیا ،یہ تاریخ کا حصہ ہے . آنحضور (ص) نے اپنے پیروکاروں کو معرکہ بدر سے بارہ سال پہلے ہی اس معرکہ کے لئے تیار کیا. ان کے سا منے " اعلیٰ مقصد " رکھا ، ایمان اور ہجرت کے روابط پر ان کا معاشرہ مستحکم کیا،تعداد کی کمی کے باوجود ان کی قوت کوبہترین انداز میں منظم کیا اور با لآخر جب ان کے ہمراہ بدر کے میدان میں تشریف لے گئے تو موقعہ کے جغرافیہ اور فوجی قوانین سے فائدہ اٹھایا .
جہاں تک ابو جہل کا تعلق ہے، وہ ایسے گروہ کی قیادت کر رہا تھا جس کے سامنے عصبیت کے علاوہ کوئی اور"اعلیٰ مقصد "نہ تھا. اس نے نہ تو موقف کا کچھ اندازہ لگایا،نہ قوت کے مناسب استعمال کی تدبیر کی. سارا زور قصیدے گانے اور طبل بجانے پر صرف کیا. جب لڑائی کا آغاز ہوا تو اس کے سامنے قوم پرستی کے جذبات ابھارنے اور جذباتی خطبے کے سوا کچھ نہ تھا. اس خطبے میں اس نے کہا ۔
"بخدا ہم واپس نہیں جائیں گے جب تک ہم بدر میں دشمن کو شکست نہ دے دیں ،شراب نہ پیئیں،مغنیہ عورتوں سے راگ نہ سنیں اور سارے عرب ہماری فتح و جلوس کی خبر نہ سن لیں تا کہ وہ ہمیشہ ہم سے خائف رہیں"
خطبہ سروں میں سمایا اور مسلمانوں سے تعداد میں تین گنا قریش آگے بڑھے.فوجیں باہم ٹکرائیں. حضور (ص) کی دانش فتح یاب ہوئی اور ابو جہل کا خطبہ نا کام ہوا، عربوں نے اس کی قوم کی شکست کی خبر سنی،اس کی لاش اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں قیامت تک کے لئے "قلیب" کے کنوئی میں دبا دی گئیں.
قران کریم نے  جب معرکہ کے نتائج کا تجزیہ کیا اور کہا کہ بیس مومن،دو سو کافروں پر غالب آ جائیں گے،تو اس کی وجہ بیان فرمائی.
ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمۡ قَوۡمٌ۬ لَّا يَفۡقَهُونَ"
(الانفال-٦٥-- -کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے )
اس علم و دانش اور اس جہا لت کے نتائج کسی قوم یا ایک زمانے تک محدود نہیں، ١٩٦٧ میں اسرائیل نے رسول کریم(ص) کی حکمت عملی اختیار کی. اس نے اپنی نوجوان نسل کے سامنے "اعلیٰ مقصد" رکھا، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیا ،بہترین انداز میں تیاری کی اور اپنی استعداد سے پورا فائدہ اٹھایا. جب وہ جنگ کے لئے  بڑھے تو جغرافیائی حالات اور جنگی قوانین سے بھی پورا فائدہ اٹھایا. ان کے مقابلے میں عربوں نے ابوجہل کے وقتی اور فی البدیہ فیصلے کا انداز اختیار کیا. انہوں نے امت کو" اعلیٰ مقاصد" سے محروم رکھا اور قبائلی و قومی عصبیت اور شخصی  مصلحتوں کو پیش نظر رکھا . جب جنگ سامنے آئ تو انہوں نے موسیقاروں کو تیار کیا اور جوشیلی تقریر میں کہا.
" بخدا ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے،جب تک ہم اسرائیل اور اس کے حامیوں کو شکست نہ دے دیں اور تل ابیب میں داخل ہو کر ام کلثوم کا گانا نہ سن لیں"
فوجیں چھ گھنٹے باہم لڑیں . ان کا لحاظ کرتے ہوئے آپ انہیں چھ دن کہہ لیں. اس معرکہ کا نتیجہ بھی جنگ بدر جیسا تھا،یعنی یہ کہ اسرائیل کو فتح ہوئی اور عربوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا. اس بحث سے ہمارا مدعا یہ نہیں کہ خطیب اور واعظ   سے لیکر مسجد،ریڈیو ،ٹیلی وژن، برقی واسطے  اور رسائل و کتب میں یہ کہتے پھریں کہ عنقریب تاریخ اپنے آپ کو دہراے گی،یا یہ کہ تاریخ میں عبرت ہے بلکہ اس بحث سے ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے انسانی معاشرہ میں اہل علم و دانش کی موجودگی کی ضرورت واضح کی جاے تاکہ لوگ ان قوانین پر روشنی ڈالیں جن کے زیر اثر آج اسلامی معا شرہ ہے. پھر ان قوانین کی مثبت اور منفی اثرات پر نگاہ ڈالیں۔

Stay Connected To Get Free Updates!

Subscribe via Email

Follow us!

0 comments:

Post a Comment