مضمون نگار--چوہدری طالب حسین
-فلسفہ مذہب میں بنی اسرائیل کا ابتدائی مذہبی سفر-٢
اگرچہ اسرائیلی مذہب عسائیت سے پہلے مختلف ارتقائی ادوار سے گزرا،پھر بھی حضرت عیسیٰ(ع) کی تعلیم سےبنی اسرائیل کے مذہبی ارتقاء کے تسلسل میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا. ان کی تعلیم انہی تصورات کی ایک ترقی یافتہ شکل تھی. اے برٹ لکھتا ہے (ملخص)، کہ عہد نامہ جدید کے تینوں صحیفوں -متی،مرقس،لوقا- میں جس طرح حضرت عیسیٰ(ع) کی زندگی بیان کی گئی ہے اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسرائیلی نبی تھے جن کا اولین مقصد یہ تھا کہ ان کی قوم کے لوگ اپنے گناہوں سے توبہ کر لیں تاکہ موعوده بادشاہت قائم ہو سکے. ہمیں ان کی زندگی اور تعلیم کا اسی نقطہ نظر سے مطالعہ کرنا ہے . اس حیثیت سے اگر دیکھا جاۓ تو انہوں نے قدیم اسرائیلی انبیاء کے انہی تصورات کو زیادہ وہ اہم تھے.
حضرت عیسیٰ(ع) نے دوسرے اسرائیلی انبیاء کی طرح رسوم کی پابندی کو ثانوی حیثیت دی اور اس کے مقابلے پر انصاف ،دیانتداری اور اخلاقی تقاضوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی پوری پوری کوشش کی جہاں کہیں انجیل میں ہمیں فریسیوں اور ربیوں کے خلاف احتجاج ملتا ہے وہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے.
یہ لوگ عشر ادا کرنے،قربانیاں پیش کرنے اور شریعت کے دوسرے ظاہری احکام کی ادائیگی میں بڑے محتاط تھے اور معمولی سے معمولی بات کو بھی ترک کرنے کے لیے تیار نہیں تھے. لیکن اس کے باعث ان میں غرور اور ناجائز خود اعتمادی کے جذبات پیدا ہو گئے. جہاں تک حقوق العباد کا تعلق تھا ،ہر قسم کی بدی اور جرم ان سے سرزد ہوتے. رشوت دینے اور لینے،دوسروں کو دھوکا دینے اور ان پر ظلم کرنے اور غریبوں اور مسکینوں سے لا انتہا بے رحمی سے پیش آنے میں انہیں کوئی جھجھک محسوس نہ ہوتی تھی (متی باب ٢٣ ). اس تمام احتجاج کا مقصد یہ نہیں تھا کہ رسوم کی ادائیگی بالکل ترک کر دی جاۓ بلکہ ظاہر و باطن کی تقابلی اہمیت کو اجاگر کر دیا جاۓ. عدل و انصاف ،رحم و محبت کے سماجی تقاضے اولین اہمیت رکھتے ہیں. اگرچہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے تقاضوں کو پورا نہ کیا جاۓ(متی،٢٣،٢٣،٢٤)
حضرت عیسیٰ(ع) نے انبیاء کرام کی پیش کردہ صورت و معنی،ظاہرو باطن کی تمیز کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ انہی کی طرح معنی اور باطن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی پوری پوری کوشش کی. آسمانی بادشاہت جنگی فتوحات سے حاصل نہ ہو گئی اور نا اس کا مقصد دنیاوی جاہ و جلال ہو گا. یہ ایک محض نفسیاتی کیفیت ہی جس کا تعلق انسان کی داخلی زندگی سے ہے.(لوقا ١٢،٢٩،٢٣،١٧،٢٠،متی ٢٥،٣١،٤٦)اساسی صفات داخلی و باطنی ہیں، مثلاّ خلوص نیت،صداقت ،خدا سے خالص عقیدت و محبت اور اسی طرح سماجی نیکیاں مثلآ عدل و انصاف ،رحم،انسانوں سے محبت . اس محبت میں تمام انسان بلا امتیاز شامل ہیں،خواہ وہ ہمارے دوست ہوں یا دشمن . اگر ہماری محبت کا اظہار محض اپنے دوستوں تک محدود ہو تو اس میں کوئی خوبی نہیں:" اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمھارے لیے کیا اجر ہے؟ میں تم سےکہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لیے دعا کرو تاکہ تم اپنے باپ (خدا- پہلی امتوں میں یہ الفاظ مستعمل تھے )کے جو آسمان پر ہے، بیٹے(بندے ) ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راست بازوں اور نا راستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے .حضرت عیسیٰ(ع) نےجو خدا کا تصور پیش کیا اس میں مناجاتیں اس تصور کا بہترین عکس ہیں.
لیکن مسیح کی شخصیت کا ایک پہلو ایسا تھا جو اسرائیلی انبیاء کے ہاں نہیں ملتا. انہوں نے خود بھی اس چیز کا اعلان کیا اور اپنے حواریوں کو بھی تسلیم کرنے کی ترغیب دی کہ وہ مسیح موعود ہیں،کم از کم اس وقت جب وہ آخری بار یروشلم کی طرف جا رہے تھے. یسعیاہ ثانی کی طرح انہوں نے یہ کہا کہ میرے مصائب در حقیقت میری اس حیثیت کے منافی نہیں کیوں کہ ان مصائب سے گزرے بغیر کوئی انسان (یا قوم) اپنے صحیح نصب العین تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا. ان کا خیال تھا کہ موت اور ذلت جس کا انہیں اپنے متعلق پیش از وقت علم ہو چکا تھا، اعلیٰ مقصد حیات کے حصول کے لیے ناگزیر ہیں.حضرت عیسیٰ(ع) بطور مسیح موعود اپنے حواریوں سے توقع رکھتے تھے کہ وہ اس سے والہانہ عقیدت رکھیں اور اس کے پیغام کی پیروی پورے خلوص سے کریں.
حضرت عیسیٰ(ع) کی وفات کے بعد ان تصورات میں اور زیادہ توسیع ہوئی. پہلے تو ان کے حواری اور پیرو پریشان ہو کر ادھر ادھر پھیل گئے. قدیم تصور یہ تھا کہ،جسے پھانسی ملتی ہے وہ خدا کی طرف سے ملعون ہے"(استثنیٰ،٢٢،٢٣) ،پھر یہ عقیدہ پھیلا کہ وہ قبر سے زندہ جی اٹھے ہیں اور آسمان کی طرف چلے گئے ہیں جہاں سے پھر زمین پر نازل ہوں گے. چنانچہ کافی لوگ ایک جگہ جمع ہو گئے اور انہوں نے آپ کی تعلیم کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا. انہوں نے کہنا شروع کیا کہ ،وہ شخص یعنی مسیح ناصری جس کو تم نے مصلوب کیا ہے،وہ پھر سے جی اٹھا ہے اور خدا کے داہنے ہاتھ بیٹھا ہے. وہ مسیح جسے خدا نے اپنے گناہ گار بندوں سے محبت کے باعث بھیجا تھا - اس کے نام پر بپتسمہ لو تو تم روح القدس انعام پاؤ گے(اعمال باب ٢ اور ٣) مگر بجائے اس کے یہ لوگ اس مذہب کی تبلیغ و اشاعت میں منہمک ہوتے جس کی تعلیم حضرت عیسیٰ(ع) نے دی تھی، انہوں نے ایک ایسے مذہب کی تبلیغ و اشاعت شروع کی جو زیادہ تر مسیح کی شخصیت کے متعلق ایک خاص نظریے پر مبنی تھا.
پولوس کی مذہبی تعلیم.
حضرت عیسیٰ(ع) کے پیرووں میں یہودیوں کا ایک ایسا گروہ تھا جس کا عقیدہ تھا کہ خدا کی طرف سے مقرر شدہ نجات دہندہ یعنی مسیح اور نبی مصلوب ، یعنی حضرت عیسیٰ(ع) ایک ہی ذات میں جمع ہو گئے ہیں،لیکن دوسرے یہودیوں کے لیے اس عقیدے کو تسلیم کرنا بہت محال تھا. وہ شخص (دوسروں میں سے ایک ) پولوس تھا جس نے اس عقیدے کی ایسی نئی تعبیر پیش کی جو اس ہیلینی دور کے یہودی اور غیر یہودی عوام دونوں کے لیے بہت حد تک قابل قبول ثابت ہوئی. اسے اس مقصد میں کامیابی اس بنا پر ہوئی کہ اس نے بنی اسرائیل کے اساسی نظریات کو اپنے زمانے کے(دوسرے مذہب اور اقوام کے) تصورات کے ساتھ ملا کر ایک مغلوبہ تیار کر دیا.
مؤخرالذکر تصورات میں سب سے نمایاں تصورات میں سب سے نمایاں تصور مذہب نجات تھا، یعنی انسان عالم روحانی سے نکل کر اس دنیا کی کثافت میں آ پھنسا ہے اور اس کا عظیم تر مقصد اس سے نجات حاصل کرنا اور ایک نئی لافانی زندگی پانا ہے.
پولوس سلیشیا کے ایک شہر تارس کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا اور یروشلم میں یہودی استادوں سے تعلیم پائی. اس کے اساسی تصورات تقریبا سب کے سب اسرائیلی روایات کےمطابق تھے. اس کا خدا وہی اسرائیلی یہواہ ہی تھا جو بنی اسرائیل سے ایک خاص میثاقی رشتے میں منسلک تھا اور جس کے سامنے زندگی اور انسانیت کا ایک خاص مقصد تھا جس کی تکمیل اس دنیا کے شب و روز میں ہوتی تھی. شریعت اور گناہ کے متعلق اس کے تصورات خالص اسرائیلی تھے. اس نے شریعت کے احکام کی تفصیلی پابندی پر اتنا زور دیا کہ اس شریعت کی پابندی ایک امر محال معلوم ہونے لگی. مسیح اور خدا کی بادشاہت کے تصورات بھی وہی تھے جو اس زمانے کے بنی اسرائیل میں عام تھے. اسی طرح اس نے حقوق العباد کے معاملے میں محبت اور الفت کا جو ایک نصب العینی تصور پیش کرنے کی کوشش کی، وہ بھی اسرائیلی ماحول کی پیداوار تھا.
لیکن ان کے ساتھ ہی ساتھ پولوس ان مذہبی تصورات سے بہت حد تک متاثر تھا جو اس ہیلینی دور میں مشرقی بحر روم کے علاقوں میں غیر اسرائیلی اقوام میں مروج اور مقبول تھے. پولوس کے خیال میں یہ تصورات انسان کی ایک شدید نفسیاتی ضرورت کو پورا کرتے تھے. اس زمانے میں کئی قسم کے باطنی مذاہب اپنے عروج پر تھے جن کا دارومدار چند خفیہ اسرار پر تھا. ان کا نمایاں تصور ایک نجات دہندہ دیوتا کا تھا جو مر کر دوبارہ زندگی پاتا ہے اور اس طرح موت پر قابو پا کر حیات ابدی سے ہم کنار ہو جاتا ہے. نجات کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس نجات دہندہ دیوتا کی ذات میں مدغم کر لیں . اس مقصد کے حصول کے لیے چند رسوم کی ادائیگی ناگزیر تھی. ان رسوم میں بعض دفعہ خون سے غسل کرنا اور کسی ممنوع جانور کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھانا شامل تھا. ان رسوم کا مقصد یہ تھا کہ سالک کو محسوس ہو کہ اس طرح وہ اپنے گناہوں سے پاک ہو کر اس دیوتا کی ابدی زندگی میں شریک ہو چکا ہے. ان باطنی مذاہب کے دیوتا مختلف قسم کے تھے.بعض مصری تھے،بعض یونانی اور بعض ایرانی .ان رسوم کا تعلق سورج دیوتا یا زرخیزی کے دیوتا کی پرستش سے تھے اور دونوں مسالک کا تصور انسان کی ابتدائی زندگی کے لیے اہم تھا جب وہ زراعت کے دور میں تھا. شمالی علاقوں میں سورج جلد غائب ہو جاتا ہے اور سبزہ سردیوں میں ختم ہو جاتا ہے لیکن موسم بہار میں دونوں ایک نئی زندگی پا کر پھر تر و تازہ ہو جاتے ہیں.
پہلے تو پولوس عسائیت کے خلاف تھا مگر ، دمشق جاتے ہوئے پولوس پر جذب کی ایک شدید حالت طاری ہوئی جس کے باعث اس کی زندگی میں انقلاب پیدا ہو گیا . اس کے بعد اس نے تمام یہودی اور غیر یہودی تصورات کو ملا کر ایک نئی تعلیم کا آغاز کیا جس میں(مذکورہ بلا باطنی مذاہب کے نجات دہندہ دیوتا کی جگہ) مسیح کو مرکزی حیثیت حاصل تھی. برٹ مزید لکھتا ہے کہ ہم پولوس کے اس تجربے کی تعبیر خواہ کسی طرح بھی کریں، اس امر سے مجال انکار نہیں کہ اس جذب کی حالت میں اس نے حضرت عیسیٰ (ع) کو دیکھا جن کے پیروؤں پر وہ مدت سے ظلم کرتا رہا تھا. اس کشف کے بعد اس کی مذہبی زندگی کی تکمیل ہو گئی. مخالفت اور دشمنی کی جگہ اب مؤدت اور الفت نے لے لی. اس نے یوں محسوس کیا کہ گویا وہ گناہ اور کثافت سے پاک ہو گیا ہے، بالکل اس طرح جس طرح باطنی مذاہب کے ہیرو اپنے نجات دہندہ دیوتا کی ذات میں مدغم ہو کر محسوس کیا کرتے ہیں. اس جذب و کشف سے جو روحانی قوت اور اسقتلال پولوس کو حاصل ہوا وہ اس کی زندگی کے آخری دنوں تک قائم رہا .
پولوس نے اپنے خطوط میں جو پہلی صدی عیسوی کے نصف آخر میں معرض تحریر میں آئے، اس روحانی انقلاب کو سمجھانے اور اپنے نظریات کو ایک الہیاتی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی. اس کی یہ تشریح مروجہ اسرائیلی اور غیر اسرائیلی اصطلاحات اور تصورات کی شکل میں پیش کی گئی .اس نے گویا انبیا ئے بنی اسرائیل کے پیش کردہ اخلاقی مسلک کو شخصی نجات کے باطنی مسلک کی شکل میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جس میں مصلوب مسیح ناصری ،مسیح موعود بھی ہے اور نجات دہندہ دیوتا یا خدا بھی. پولوس کا عقیدہ تھا کہ اس کی موت اور موت کے بعد حیات سے مماثلت پیدا کر کے ہم گناہ اور فنا سے نجات حاصل کر سکتے ہیں.ہماری قدیم گناہگاری مسیح کے ساتھ مصلوب ہو جاتی ہے اور جب ہم دوبارہ (نئی) زندگی پاتے ہیں تو محض وہ عام زندگی نہیں ہوتی بلکہ مسیح ہم میں زندہ ہوتا ہے (گلتیوں،٢،٢٠)- پولوس کی اس نئی تعبیر کے چند خصوصی اجزاء کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے.
خدا نے اس کائنات کی یوں تخلیق کی جیسا کہ صحیفۂ پیدائش میں مذکور ہے اور آدم انسانی نسل کا پہلا فرد ہے. آدم کو خدا کے احکام کی فرمانبرداری اور نا فرمانی کرنے کا پورا اختیار دیا تھا. شیطان کے وسوسوں میں پھنس کر آدم سے گناہ سر زد ہوا. اس کے باعث تمام بنی آدم گناہ میں ملوث ہو گئے. لیکن خدا کو اس المیے کا پورا پورا علم تھا اور اس نے کمال محبت اور رحم سے اپنے برگزیدہ بندوں کے لیے نجات کا ایک راستہ پیش کیا. یسوع مسیح جو خدا اور کائنات کی ابتدائی تخلیق میں خدا کا نائب تھا اپنے وقت پر انسانی شکل میں ظاہر ہو گا اور موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے سے بنی آدم کے لیے نجات کا راستہ صاف کر دے گا. جس طرح آدم کے گناہ کے باعث تمام انسان گناہگار ہوئے اور موت اور گندگی میں دھکیلے گئے، اسی طرح مسیح کے باعث وہ دوبارہ زندگی حاصل کر سکتے ہیں . یہ صحیح ہے کہ تمام لوگ مسیح کی نجات دہندگی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ،صرف وہی لوگ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں جن کے مقدر میں خدا نے نجات لکھی ہے. ایمان مسیح کی انقلاب انگیز قوت(نجات دہندگی) کے آگے اپنی دلی رضا سے سر خم کرنے کا نام ہے .
اس قلب ماہیت کے بعد عسائیت، باطنی مذھب کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس میں انسان کی نجات کا تصور پیش پیش نظر آتا ہے. ایسے مذہب میں اسرائیلی فکر اور خود حضرت عیسیٰ(ع) کے اپنے بیان کردہ تصور مسیح کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی لیکن پولوس کو اپنے انوکھے نظریات کی تکمیل کے لیے اس کی ضرورت تھی. چنانچہ حضرت عیسیٰ(ع) کے بطور مسیح دوبارہ اس دنیا میں آنے، یوم حساب کے قائم ہونے اور آسمانی بادشاہت کے قیام کے تصورات بھی پیش کیے.
اگرچہ تینوں اناجیل- متی،لوقا اور مرقس-پولوس کی وفات کے بعد لکھی گئیں ، تاہم وہ اس کے نظریات سے متاثر نہیں. پولوس کے ہاں یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ نجات پانے کے لیے مسیح کی ذات میں مدغم ہونا ضروری ہے. یہ تصور یوحنا کی انجیل میں زیادہ مبالغہ آمیز شکل میں موجود ہے.محققین کا خیال ہے کہ یہ چوتھی انجیل دوسری صدی عیسوی کےآغاز میں لکھی گئی اور اس میں وہ تمام فلسفیانہ تصورات موجود ہیں جو اس زمانے میں اسکندریہ اور انطاکیہ میں مروج تھے. یوحنا کی انجیل میں محبت کا شخصی تصور ہونے کے علاوہ یہ متصوفانہ نظریات بھی پاۓ جاتے ہیں کہ ، ملکوتی محبت کائنات کا ایک جوہری وجود ہے جو ہماری محبت کا حرکی مصدر و منبع ہے. اس کا وجود اساسی فعل تخلیقی خود فراموشی -Self giving- ہے. جب تک ہم اس جوہری وجود سے رابطہ پیدا کر کے اس سے متحد نہیں ہو جاتے جس سے ہم میں یہی خود فراموشی پیدا نہیں ہوتی ،تب تک ہم فنا اور موت سے محفوظ نہیں رہ سکتے. خدا کی محبت گویا ایک محیط،حیات بخش واسطہ -Medium- ہے جو کائنات میں جاری و ساری ہے. اس مادی دنیا سے ملکوتی روح کی مثال نور کی سی ہے جس کی فطرت ہی تاریکی کو دور کرنا ہے اور جس پر تاریکی کھبی فتح نہیں پا سکتی.
ضروری نہیں کہ انسانی خودی اور اس ملکوتی روح کا اتصال صرف موت کے بعد ہو. یہ اتحاد اور اتصال اس دنیا میں آج بھی حاصل ہو سکتا ہے، لیکن یہ صرف ان لوگوں کے لیے ممکن ہے جو روحانی طور پر ایک نئی پیدائش سے سرفراز ہوں. اس تخلیق جدید کے باعث وہ لا فانی زندگی کے وارث قرار پاتے ہیں. انکے لیے یوم حساب کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر نیکی اور تقوے کے دائرے میں داخل ہو چکے ہیں اور ابدی زندگی کی مسرتوں سے لبریز(٥،٢٤) وہ مسیح کے زریعے خدا سے اتحاد و وصال حاصل کر چکے ہیں.
یوحنا کے مطابق ،اگر انسان خدا سے محبت کرنا چاہیں تو اس واسطے یعنی مسیح کے بغیر نہیں کر سکتے ، وہ خدا کا بیٹا ہے. اس معنی میں کہ وہ ابتدا ہی سے ملکوتی اور خدائی فطرت میں حصہ دار ہے. وہ کلمہ سے یعنی وہ ما بعد الطبیعی اصول حکمت ہے جس کےوسیلے سے کائنات کی تخلیق ہوئی (١،١،٣) خا کا یہ بیٹا یعنی "کلمہ" حضرت عیسیٰ(ع) کی ذات میں حلول کر گیا تاکہ وہ اپنی موت حتیٰ کہ صلیبی موت سے انسانوں کے مصائب اور غموں میں شریک ہو سکے اور اس طرح ایک ڈرامائی انداز میں لوگوں کے سامنے حیات بخش خود فراموشی کا نمونہ پیش کر سکے. اس کے وسیلے سے انسان دوسرے انسانوں اور خود خدا سے وصل و اتحاد پیدا کر سکتے ہیں . اس اتحاد کی مادی علامت عشاےء ربانی کی رسم ہے جب سالک مقدس کھانا کھا کر مسیح کا گوشت کھاتا اور مقدس شراب پی کر مسیح کا خون پیتا ہے.(٦،٥١) -یوحنا کی انجیل کا یہ نظریہ خدا، مسیح اور نجات کا تصوفانہ تصور عیسائیت کی قدیم شرعی یا قانونی تعبیر کے مقابل زیادہ با اثر ثابت ہوا .
جب چوتھی انجیل میں "کلمہ" کی اصطلاح استعمال کی گئی تو ایک نئی تحریک کا آغاز ہوا. ان مذاہب کے سربراہان اگرچہ فلسفی نا تھے مگر ان مذاہب کی تشریح کے لیے وہ اصطلاحات استعمال ہونے لگیں جن سے وہ مانوس تھے اور جو (پہلے سے موجود )یونانی فلسفے سے ماخذ تھیں . پولوس کا بھی یہی معاملہ تھا. انسانی زندگی میں مادی اور روحانی تقاضوں کی دوئی اور ثنویت جس کو پولوس نے بطور مفروضہ پیش کیا ، اسی فلسفے سے ماخوز تھی.
مغربی دنیا میں سب سے پہلے آرفیسی نظام فکر نے اس ثنویت کو پیش کیا جس کے بعد،چوتھی صدی قبل مسیح کے افلاطون نے فلسفیانہ شکل دی.
پھرعیسائیت کی فلسفیانہ تشکیل اور تعبیر کے بعد جس میں کئی صدیاں صرف ہوئیں،مغربی فلسفۂ مذہب اپنے مسائل اور ان مسائل کا حل انہی اصطلاحات میں پیش کرنے پر مجبور تھا جو اس نے یونانی فلسفے سے مستعارلی تھیں.(ملخص -فلسفۂ مذہب -از ایڈوں اے برٹ مترجم بشیر احمد ڈار)
اسلامی تعلیمات قرآن و حدیث پر مبنی مانی جاتی ہیں.
ReplyDelete