عیسا ئیت تک بنی اسرائیل کا مذہبی سفر مغربی فلاسفر کی نظر میں :
اسرائیلی مذہب کے تاریخ کا قدیم ترین دور ١٣٠٠ سے ١٠٠٠ قبل مسیح تک پھیلا ہوا ہے. ان تین سو سال میں اسرائیلی قبیلے فلسطین کے زرخیز میدانوں کو فتح کرتے رہے ، یہاں اس ملک کے قدیم باشندوں سے ان کا رابطہ ہوا اور جلد ہی وہ ان سے گھل مل گئے. اس فتح کے بعد ان کی طرز زندگی میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوا ،خانہ بدوشی کی زندگی چھوڑ کر انہوں نے ایک جگہ ٹھہر کر کھیتی باڑی کا کام شروع کیا . ان میں قدیم زمانے کی تاریخی روایت موجود تھی کی کبھی وہ مصر میں فرعون کی غلامی میں مبتلا تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلامکی مدد اور خداوند یہواہ کے فضل سے انہیں اس غلامی سے نجات نصیب ہوئی. اس دور میں ان کے مذہب کے متعلق جو کچھ معلومات ہمارے پاس ہیں، وہ عہد نامہ قدیم کی کتب "یشوع"، قضاہ" اور "سموئیل " سے حاصل ہوئی ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے بنی اسرائیل کئی دیوتاؤں کے پجاری تھے .ہر قبیلے اور خاندان کا اپنا ایک دیوتا تھا جس سے وہ پناہ اور مدد کا خواہاں ہوتا تھا. جب وہ مصر میں غلامی میں مبتلا تھے، حضرت موسیٰ ایک شدید حیات بخش مذھبی واردات سے دوچار ہوئے، جس کی تعبیر انہوں نے یوں کی کہ فلسطین کے جنوب میں واقع کوہ سینا پر خدا کا ظہور ہوا جس نے حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو قیدمصر سے نکال کر ایک ایسے ملک میں لے جائیں جہاں وہ خوش حالی کی زندگی بسر کر سکیں. حضرت موسیٰ اس کوشش میں کامیاب ہو گئے لیکن اس موعوده ملک میں پہنچنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا ، اور بنی اسرائیل کی سرداری یشوع کے حصے میں آئی . ان انقلاب انگیز حالات کے باعث بنی اسرائیل نے اپنی قدیم مذھبی روایات کو خیر باد کہا . وہ یہواہ کے بہت ممنوں تھے جس نے ان کی مدد کی. چنانچہ حضرت موسیٰ اور یشوع کے کہنے سے انہوں نے یہواہ سے میثاق باندھا کہ وہ اور ان کی اولاد ہمیشہ اس کے وفادار رہیں گے . اس میثاق کا مفہوم ان کے سرداروں کی تعبیرکے مطابق یہ تھا کہ وہ اس کے شکر گزار رہتے ہوے اسی کی عبادت اور تابعداری کریں گے،اس کے بدلے میں یہواہ اپنی چہیتی قوم بنی اسرائیل کی حفاظت اور رہنمائی کرے گا.
اس میثاقی رشتے کی باعث بنی اسرائیل کی مذہبی زندگی اپنی ہم سایہ اقوام سے دو حیثیتوں میں بالکل متمیز ہوگئی. اول بنی اسرائیل میں انفرادی اور سماجی ذمہ داری کا شدید احساس پیدا ہو گیا.دوسرے اس سے ایک نمایاں تاریخی شعور بھی ظہور پذیر ہوا جو اسرائیلی مذہب کے تصورات و رجحانات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے. اس ذمہ داری کا شعور ان کے اس میثاقی تصور پر مبنی تھا کہ پیش تر اس کے کہ وہ یا ان کے آباؤ اجداد کسی قسم کے فضل و بخشش کے مستحق ہوتے ،خداوند یہواہ نے انہیں تمام بنی نوع انسان میں سے منتخب کیا،انہیں غلامی سے نجات دلوائی اور ایک زرخیز اور سر سبز ملک ان کے لیے مہیا کیا.چونکہ وہ اور ان کی اولاد سب اس نعمت میں شریک اور حصہ دار ہیں ، اس لیے یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس خدا کے وفادار رہیں اور اس مذہب کی دیانت داری اور خلوص سے پیروی کریں جس کا حکم اس نے دیا ہے. اس کے بعد نبیوں اور رسولوں نے ہمیشہ اس احساس ذمہ داری کی بنیاد پر تجدید اور اصلاح کا کام جاری رکھا اور انہیں اس میثاق کی یاد دھانی کرائی. تاریخی شعور کی بنیاد اس تصور پر نہ تھی کہ یہواہ محض مظاہر قدرت یعنی چاند ،زمیں ،ہوا وغیرہ کا دیوتا ہے جن کے خلاف انسان کو بقاۓ ذات کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے،بلکہ یہ کہ خدا ان تمام قوتوں پر فرمان روا ہے. اس کے سامنے ایک مقصد اعلیٰ ہے جس کے حصول کے لیے وہ اپنی چہیتی قوم کے تعاون کا طلبگار ہے. اس تاریخی شعور اور درخشاں مستقبل کے تصورات کے باعث نبیﷺ اور رسول اپنے اپنے زمانے کے ماحول اور بدلتے ہوئے حالات میں اس میثاق خداوندی کی نئی نئی تعبیریں پیش کرتے اور لوگوں کو اس میثاق کی رو سے پیدا ہونے والی ذمہ داریاں یاد دلاتے رہے.
ان خصوصی صفات اور ان کے مضمرات کو چھوڑ کر بنی اسرائیل کے دوسرے تصورات اپنے زمانے کی دوسری متمدن قوموں کے تصورات سے مشابہ تھے.
یہواہ کے دل میں بنی اسرائیل کے دشمنوں کے متعلق کوئی ہمدردی نہیں ہے،وہ مسلمہ سرداروں پر وحی نازل کر کے اپنی رضا اور ارادے کا اظہار بھی کرتا ہے. اس نے بنی اسرائیل پر چند رسوم کی پابندی عائد کر دی ہے جن میں سے بعض ذراعتی میلوں سے متعلق ہیں کچھ اس دن کی یادگار منانے سے تعلق رکھتی ہیں،جب انہوں نے مصری فراعنہ کی غلامی سے نجات حاصل کی تھی. اس نے ان پر چند اخلاقی فرائض بھی عائد کیے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی قوم میں عدل و انصاف قائم کریں، لیکن جہاں تک اجنبیوں،بیواؤں ،یتیموں ،غلاموں وغیرہ پر رحم و شفقت کا سوال ہے ،ناقدین اس معاملے میں متفق نہیں کہ یہ عہد نامہ قدیم میں پائے جاتے ہیں یا نہیں.
یہواہ کا بنی اسرائیل سے خصوصی تعلق اس امر سے واضح تھا کہ اس نے تمام اقوام میں سے اس کا انتخاب اس وقت کیا جب وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اس کی اعانت اور فضل سے وہ آزادی سے ہم کنار ہوئی اور ایک زرخیز و سر سبز ملک اس کی رہائش کے لیے بخشا گیا . اس زمانے میں دوسرے دیوتاؤں کے وجود سے انکار کا سوال پیدا نہ ہوا تھا اور میثاق کی ابتدائی تعبیر کچھ اس طرح کی گئی تھی کہ بنی اسرائیل کے لیے ان دیوتاؤں سے قطع تعلق کرنا ضروری تھا،اگرچہ عملی طور پر انہیں کی ایسے دیوتا کا مرہون منت ہونے کی ضرورت تھی اور ان کی اولین اور آخری وفاداری یہواہ تک محدود تھی.
جب مصر، شام ،اسوریا اور بابل کی فوجوں نے فلسطین پر حملے کیے اور اس کو فتح کر لیا تو انبیاء نے ان واقعات کو بنی اسرائیل کے لیے خدا کی تنبیہ قرار دیا . اس میں یہواہ کا ایک بالکل نیا تصور مضمر تھا، یعنی وہ نہ صرف بنی اسرائیل کا بلکہ سب قوموں کا خدا ہے ، خواہ وہ قومیں اسے خدا تسلیم کریں یا نہ کریں کیونکہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ یہواہ کے اس بلند تر مقصد کے مطابق ہے جو اس نے بنی اسرائیل کے لیے تجویز کیا ہے . یسعیاہ کے نزدیک اسوری حملہ آور یہواہ کے قہر کا اعصا اور ہتھیار ہے.
اس سے بنی اسرائیل کے ہاں سے دوسرے دیوتاؤں کا تصور ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ،یہواہ ہی اس تمام کائنات کا خدا ہے اور اس کی بخشش و عنایت اس دنیا کے تمام انسانوں پر یکساں ہے . اس تصور کو یسعیاہ نے نہایت حسین اور شاعرانہ انداز میں یوں پیش کیا.
"ساری زمین اس کے جلال سے معمور ہے" انبیاء کی اس نئی تعبیر نے تخلیق کائنات کا وہ نظریہ پیش کیا جس کا الہیاتی بیان صحیفہ پیدائش میں مذکور ہے جہاں یہواہ کو کائنات کا واحد خالق اور اس کی تاریخی ارتقاء کا عالم کل اور عامل کل بیان کیا گیا.
انبیاء بنی اسرائیل نے لوگوں کی توجہ محض رسوم کی پابندی سے ہٹا کر میثاق کے اخلاقی اور سماجی تقاضوں کی طرف منعطف کرائی .
عاموس نبی)(ع) کہتا ہے:
خداوند یوں فرماتا ہے کی اسرائیل کے تین بلکہ چار گناہوں کے سبب سے میں اس کو بے سزا نہ چھوڑوں گا کیونکہ انہوں نے صادق (یعنی متقی) کو روپے اور مسکین کو جوتیوں کے جوڑے کی خاطر بیچ ڈالا. وہ مسکینوں کے سر کی گرد کا بھی لالچ رکھتے ہیں اور حلیموں کو ان کی راہ گیر کرتے ہیں (٦-٧٦٦).
" میں تمہاری عیدوں کو مکروہ جانتا اور ان سے نفرت رکھتا ہوں ...اور تمھارے فربہ جانوروں کی شکرانہ کی قربانیوں کو خاطر میں نہ لاؤں گا....لیکن عدالت کو پانی کی مانند اور صداقت ( یعنی تقویٰ ) کو بڑی نہر کی مانند جاری رکھ(٤،٢١،٢٤)
ظاہر سے با طن کی طرف رجوع کرنے سے مراد ہے کہ جہاں پہلے ظاہری اعمال کو اہم حیثیت حاصل تھی ،اب اس عمل کی روح یا جذبے کی طرف زیادہ توجہ دی جاۓ گی.
پھر "روح" اور "روحانی " کے الفاظ کا ایک نیا مفہوم سامنے آیا . قدیم اقوام میں روح کا تصور مادی تھا. روح جسم کا ایک طبعی عمل تھا جسے عام طور پر نفخ یا سانس سے تعبیر کیا جاتا تھا. جب تک جسم میں سانس ہے ،جسم زندہ ہے اور جب سانس کی آمدو رفت ختم ہوئی ،جسم پر موت طاری ہوگئی . جب انبیاء کی نئی تعلیم کے باعث یہودیت میں یہ تبدیلی پیدا ہوئی تو روح کا یہ جسمانی تصور بھی ترک کر دیا گیا. اب اس سے مراد انسان کی وہ داخلی قوت تھی جس کے باعث اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے ، جس کے نتیجے میں وہ دوسرے انسانوں اور خدا کے معاملے میں خلوص،محبت اور انصاف کا اظہار کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے.
جب بابلی حملہ آوروں کے باعث بنی اسرائیل اپنی آزاد مملکت سے محروم ہو گئی اور پھر غلامی اور جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئی تو خارجی حالّات نے ان کی مرکزی عبادت گاہ تباہ ہو گئی اور اس طرح ان تمام مذہبی رسوم کی ادائیگی جو صرف اسی عبادت گاہ سے وابستہ تھی،ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی . ایک غیر ملک میں غلامی کی زندگی بسر کرتے ہوئے وہ اپنی شریعت کے بہت سے احکام کو پورا کرنے سے عاجز تھے،اب اگر وہ اپنے دین کی پیروی کرنا چاہتے تھے تو حالات کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان رسوم کو تو الوداع کہیں لیکن ان کی داخلی روح کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں. حالات کی مجبوری کے باعث اس کے اکثر حصے پر عمل درآمد کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا ،تاہم وہ یہواہ سے محبت اور التجا تو کر سکتے تھے .اس طرح حالات کے زیر اثر اسرائیلی مذہب شریعت کی ظاہری پیروی کی بجاۓ ایک داخلی جذبے اور روحانی تجربے کی حیثیت اختیار کرتا چلا گیا . انسان کی اخلاقی اور روحانی ذمہ داری کا اظہار اب کسی رسم کی ادائیگی کی بجائے خلوص نیت ، پاکیزگی،خیال، رحم اور الفت کے زریعے کیا جانے لگا .
زبور کا صحیفہ جو جلاوطنی کے بعد کی پیداوار ہے،اس تبدیلی کا بہترین آئینہ ہے. اس میں عمدہ اور شاندار تشبیہات کے زریعے مذہب کے اس روحانی تصور کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے.
بابلی جلا وطنی کے دوران میں بنی اسرائیلی نے کچھ اور تصورات بھی پاۓ ،بعض نے شخصی بقا کا ایک نیا(اس وقت میں انوکھا) تصور قائم کیا جس کے ساتھ جنت اور جہنم کے (موجودہ مانوس) تصورات پیدا ہوئے. جہنم ایک ایسی جگہ تھی جہاں بدکاروں کو ہمیشگی کی سزا سے دوچار ہونا پڑے گا اور جنت وہ جگہ ہو گی جہاں نیکوں کو یہواہ کا قرب نصیب ہو گا ،جس کا ہلکا سا تجربہ پرہیزگاروں کو اسی دنیا ہی میں حاصل ہوتا ہے. بعض نے یہ نظریہ پیش کیا کہ تمام لوگ جو ابتدئے آفرینش سے اس دنیا میں موجود تھے اور مر چکے ہیں ،سب زندہ کیے جائیں گے (صحیفہ دانیال -ع-١٢،) اس کے ساتھ ساتھ روز حسابکا تصور بھی قائم ہوا .
اس دور میں کئی نئے تصورات اسرائیلی مذہب میں داخل اور کئی قدیم تصورات کو ایک بالکل نئی شکل میں پیش کیا جانے لگا . اکثر محققین کا خیال ہے کہ یہ نئے تصورات زرتشتیوں سے مستعار لیے گئے. یہ اس دور کا واقعہ ہے جب ایرانیوں نے بابل فتح کر کے ایک عظیم الشان سلطنت قائم کر لی تھی . ان مستعار تصورات میں سے زیادہ اہم یہ تھے . قیامت کے دن مردوں کا دوبارہ جی اٹھنا ،خدا کا عدالت قائم کرنا اور نیکوں کو ان کے کے اعمال کی جزا اور بدوں کو سزا دینا ،فرشتوں کا وجود ،جن میں سے بعض تو یہواہ کے تخت کے اردگرد مکین ہیں اور بعض اس کے پیغام پر اور بعض اس کے حکم سے مختلف کام سر انجام دیتے ہیں ، ایک شیطان کا وجود جو بدی کے کارندوں کا سردار ہے اور جو یہواہ کا باغی اور انسان کو گمراہ کرتا ہے . اسرائیلی تعبیر کے مطابق یہ شیطان ابتدا میں ایک فرشتہ تھا لیکن بعد میں اس نے خدا سے بغاوت کر دی. وہ اور اس کے ساتھی اب پاتال میں قید ہیں جہاں وہ انسانوں کو گمراہ کرنے میں مشغول ہیں. وہ وقت آنے والا ہے جب یہواہ ان سب کو نیست و نابود کر دے گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے دھکیل دے گا. یہ تمام تصورات عسائیت میں داخل ہو گئے اور مغربی فلسفہ مذہب کے پس منظر کا جزو بن گئے.
یہ وہ مذہبی ماحول تھا جس میں حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے۔
0 comments:
Post a Comment