آئیں دیکھتے ہیں کہ شریعت اسلامی کی تعبیرو تشریح،مذھبی نقطہ نظر سے سخت گیر صوفی محمد کے ہاں کیسی ہے. ان کے مطابق اگر کہیں شریعت نافذ تھی تو ماضی میں کابل میں تھی ،جس کو بچانے کے لیے یہ لوگ گئے تھے ، اب کہیں بھی شریعت نافذ نہیں ہے . پاکستان کی حکومت دوسری حکومتوں کی طرح غیر اسلامی ہے اور آئین بھی. حالانکہ "قرار داد مقاصد" آئین پاکستان کا ضروری حصہ ہے. اسلامی نظریاتی کونسل ، بین ا لاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ادارہ تحقیقات اسلامی ، وفاقی شرعی عدالت کام کر رہے ہیں ، اعلی عدالتیں اجتہاد کے اختیارات رکھتی ہیں. صوفی محمد کے نزدیک جمہوری نظام باطل ہے اور وہ عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے کے حق میں نہیں ہیں. (اجتہاد مئی ٢٠٠٩ میں شامل صوفی محمد سے سلیم صافی کا انٹرویو .ملخص )- چاہیے تو یہ ہے کہ اجتماعی اجتہاد کا رستہ اپنا کر شریعت کی درست تعبیر و تشریح کریں تاکہ حق تک پہنچ سکیں . قاعدہ ہے کہ جو منع نہیں وہ مباح ہے ، ہر کام کے لیے مخصوص حکم نہیں ہے بلکہ احکام تھوڑے ہیں اور مسائل پیش آمدہ بہت زیادہ ہیں. اصلاح و فلاح ہی شریعت کے مقاصد میں ہے، اور مقاصد شریعت کو جدید تقاضوں کے مطابق دیکھنا ہو گا.
ایک سوال کے جواب میں صوفی محمد نے کہا .
"الله تصویر اتروانے والی پر لعنت بھیجتا ہے "، جو لوگ سیاسی مذہبی راہنما تصویر اتروانا پسند کرتے ہیں ، وہ لوگ جمہوریت پر یقین رکھنے والے ہیں، اور میرے نزدیک جمہوریت اسلام کے خلاف ہے.
سوال: کیا سب علماء غلطی پر ہیں اور صرف آپ حق پر ہیں.؟
جواب: یہ تمام غلطی پر ہیں قران و سنت کا نظام شریعت محمدی (ص) ہے اور جو اس کے خلاف ہو، وہ باطل ہے.
سوال:کیا ویڈیو کی تصویر بھی حرام ہے؟ ہم اس کے بغیر جدید دور میں میڈیا کے میدان میں کفار کا مقابلہ کیسے کریں گے؟
جواب.ہر قسم کی تصویر قطعا منع ہے، حدیث میں کوئی تفریق نہیں کی گئی . وہ ابلاغ جس میں اللہ کی رضا نہ ہو عبث ہے. ہم شریعت پر کار بند رہتے ہوئے اس (دور جدید ) کا مقابلہ کریں گے. مگر صرف حق کے ساتھ. نہ کہ کفار کے ساتھ موافقت کی جاۓ اور یہ (تصویر کشی ) کفار کی موافقت ہے وہ یہ کرتے ہیں اور اگر ہم بھی کریں تو ہمارے اور ان کے مابین فرق مٹ جاۓ گا.
شریعت کا کام تین باتوں پر مشتمل ہے . اتفاق،بائیکاٹ اور رد باطل یعنی باطل کی تردید. ان اصولوں کے تحت زندگی گزارنے سے ہی معافی مل سکتی ہے.
سوال: یعنی آپ شریعت کانفاذ کرنا چاہتے ہیں؟لیکن شریعت آپ کس طریقے سے نافذ کرنا چاہتے ہیں ؟ بہت سارے لوگ آپ کے طریقے سے اختلاف رکھتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب :جی ہاں -- بہت سارے انبیاء نے عملا شریعت نافذ نہیں کی لیکن اس کے لیے کام کیا ہے وہ کام میں کر رہا ہوں اگر نافذ نہ بھی ہو جاۓ تو میں معاف ہو جاؤنگا ،معافی کا راستہ یہی ہے.----میرا طریقه وہی ہے جو انبیاء نے اپنایا ہے. یعنی باطل کا بائیکاٹ کرنا. میں اتفاق کی بات کرتا ہوں جبکہ یہ جو دوسرے ہیں وہ اتفاق نہیں کرتے . ان کے طریقے انبیاء کے طریقے کے خلاف ہیں. اس لیے انکو معافی نہیں مل سکتی . نوح (ع) نے ساڑھے نو (سو ) سال جدو جہد کی لیکن شریعت نافذ نہیں کر سکے لیکن معاف ہوئے. کیونکہ وہ باطل کا بائیکاٹ کرتے رہے. باطل کے ذریعے فیصلے نہ کرنا اور زبان سے باطل کا رد کرنا. یعنی قول و فعل ایک ہو یہی شریعت کا تقاضا ہے.
سوال: آپ کے نزدیک جہاد سے کیا مراد ہے؟
جہاد دو قسم کا ہے، ایک جہاد بالقتال ہے -اس کی پانچ شرائط ہیں. حکومت اسلامی کی موجودگی یعنی شریعت محمدی کا نفاز ، امیر کی اجازت،تیسری یہ کہ کفار کی دگنے سے زیادہ نہ ہو ، چوتھی یہ کہ ان کے ساتھ معاہدہ موجود نہ ہو، پانچویں شرط اسلام لانے کی دعوت دینا اور اسلام نہ قبول کرنے کی صورت میں جزیے کا مطالبہ اور اس کے بعد قتال کی نوبت آئے گی. اور دفاعی جہاد اس کو کہتے ہیں کہ شریعت قائم ہو اور کفار اسکو ختم کرنا چاہیں تو پوری دنیا کا فرض ہے کہ اس کا دفاع کرے. جیسے کہ افغانستان میں تھا. اس وقت پوری دنیا میں کہیں بھی جہاد بالقتال نہیں ہے کیونکہ کہیں شریعت قائم نہیں ہے تو کس چیز کا دفاع کیا جاۓ .(یعنی جب تک شریعت قائم نہ ہو جہاد منع ہے ) اس سوال کے جواب میں صوفی محمد نے کہا --جی ہاں اس سے قرآن نے منع کیا ہے.
سوال:اور دفاعی جہاد کے لوازمات کیا ہیں؟
جواب. اگر کہیں شریعت نافذ ہو اور کفار اس کو ختم کرنے کے درپے ہوں تو اس کے دفاع کے لیے جہاد ہر ایک پر فرض ہے. شریعت پاکستان میں قائم نہیں ہے صرف کابل میں قائم تھی اور اس کے دفاع کے لیے ہم گئے تھے، وہ(افغانستان میں ) دفاعی جہاد تھا، اس میں امیر کی اجازت ضروری نہیں تھی، وہ عورتوں پر بھی فرض تھا اس قسم کے جہاد میں شوہر سے اجازت لیے بغیر کوئی خاتوں بھی شریک ہو سکتی ہے. دفاعی جہاد مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک سب لوگوں پر فرض ہوتا ہے اس لیے سب جائیں گے. (سوال -یعنی تلوار صرف شرعی حکومت کے بچاؤ کے لیے اٹھائی جا سکتی ہے نہ کہ اس کے نفاذ کے لئے؟ جواب: نہیں جی، جب تک شریعت نافذ نہ ہو آپ تلوار نہیں اٹھا سکتے. )
سوال: لیکن ماضی میں ہم نے دیکھا کہ آپ لوگوں نے شریعت کے نفاذ کے لیے بندوق اٹھا لی؟
جواب .میں اس کا مخالف تھا . ان لوگوں نے مجھے بتاۓ بغیر یہ کام کیا اور جب مجھے پتہ چلا کہ میرے لوگ یہ کام کر رہے ہیں تو میں فوج کے ساتھ گیا اور ان لوگوں کو منع کیا.
سوال :وہ امریکی اب بھی افغانستان میں موجود ہے پھر آپ اب کیوں جہاد نہیں کرتے. آپ امریکیوں کو افغانستان سے نکالے بغیر واپس کیوں لوٹ آئے؟
جواب. اب وہاں جہاد فرض کفایہ ہے. اور پہلے چونکہ افغانستان میں شریعیت نافذ تھی تو اس وقت یہ جہاد فرض عین تھا.(انکے مطابق اب وہاں غیر اسلامی حکومت ہے )
سوال :قاضی حسین احمد بھی شریعت کا مطالبہ کرتے ہیں. مولانا فضل الرحمان بھی اور دیگر بھی. تو پھر آپ انکا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟
جواب -وہ جمہوریت میں شریعت ڈھونڈ رہے ہیں، جمہوریت شریعت کی زد ہے ان کا ساتھ دینا فضول ہے. اسلام میں شوریٰ عالمین، بالغان اور آزاد لوگوں کی ہوتی ہے لیکن جمہوریت میں مرد و عورت اور ہر مسلم و غیر مسلم برابر ہیں. (سوال. کیا مرد و عورت برابر نہیں؟-جواب. فاسق و فاجر، صالح اور غیر صالح برابر نہیں ہوتا. ). امریکہ اور پاکستان میں حاکمیت اکثریت کی ہے الله پاک کی نہیں. قرآن و حدیث موجود ہیں تو آئین کی کیا ضرورت ہے اس کی پابندی ہونی چاہیے . پاکستان کی حکومت تو خود ساختہ ہے کسی کی بنائی ہوئی .
سوال . کیا دنیا میں پہلی جمہوری ریاست خلفائے راشدین نے قائم نہیں کی تھی؟
جواب. اس زما نے میں شوریٰ اس پرکام کر رہا تھا، جس میں نص موجود نہ تھا امیر کے لیے شوریٰ تھا قانون بنانے کے لیے نہیں. ان کا شوریٰ تو قانون کے لیے ہے اور چونکہ باطل کے ساتھ زیادہ ہیں اس لیے جمہوریت کے ذریعے خواہ مخواہ باطل غالب ہو گا.
سوال. ملاکنڈ میں آپ فی الوقت صرف عدالتی نظام پر زور دے رہے ہیں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرف آپ کی توجہ نہیں. اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب. دو وجوہات ہیں معشیت اور معاشرت کی اصلاح کا زریعہ عدالت بنے گا قاضی شریعت کے مطابق فیصلے کرے گا. نظام عدالت شرعی نہ ہو تو شریعت نافذ نہیں ہو سکتی دوسری وجہ یہ ہے کہ غیر الله پر فیصلہ کرنا کفر ہے باقی چیزیں اگر نہ ہوں تو وہ گناہ ہے. کفر سے انسان بچ جاۓ تو گناہ توبہ استغفار کے ذریعے معاف ہو سکتا ہے معیشت معاشرت اسلام کے مطابق نہ ہو تو وہ گناہ ہیں اور عدالت شریعت کی مطابق نہ ہو تو یہ کفر ہے. ایک سوال کے جواب میں کہا ،کہ سعودی عرب اور ایران میں بھی اسلامی نظام نہیں ہے، صرف کابل میں طالبان کے دور میں شریعت تھی.
سوال . دیر ،سوات،لڑکیوں کے سکول جلاۓ جا رہے ہیں، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جواب. شریعت موجود ہو تو لڑکیوں کے تعلیم کی اجازت نہیں ہے اب شریعت موجود نہیں ہے لیکن جبرا(جبر سے ) منع کرنا بھی منع ہے.
سوال.حضور (ص) نے تو علم کا حصول ہر مرد و عورت کا فرض قرار دیا ہے؟
جواب. موجودہ حالات میں شرعی پردے کا امکان نہیں ہر جگہ مرد موجود ہیں، جگہ جگہ مرد خواتین اکٹھے پھر رہے ہیں. اب دینی مدارس ہوں یا سکول ان میں پردے اور حجاب ممکن نہیں. حصول دین کے فرائض یہ ہیں کہ الله کے حقوق ماں،باپ اور شوہر کے حقوق عورت سممجھ لے . یہ جاننا ضروری ہے بلوغ تک اس کو بڑھانے کی ذمہ داری باپ پر ہے اور اس کے بعد شوہر کی ذمہ داری ہو جاتی ہے پھر عورت کے لیے باہر نکلنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی.
سوال.یعنی تعلیم کے لیے عورت باہر نہیں جا سکتی؟
جواب.جی نہیں جا سکتی.
سوال. اگر پردے میں ہو تب بھی؟
جواب. بس حج کے علاوہ عورت کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں.
سوال. خاتوں مریض کیا ڈاکٹر کے پاس جا سکتی ہے؟
جواب. جتنا امکان ہو نہیں جانا چاہیے -لیکن بیماری حالت اضطرار ہے جیسے شراب پینا اور خنزیر کا گوشت کھانا موت سے بچنے کے لیے حسب ضرورت اس کی اجازت ہے لیکن انسان اس کی خواہش نہیں کرے گا.
سوال. کیا اس لحاظ سے ضروری نہیں کہ بچیاں پڑھ کر ڈاکٹر بن کر خواتین ہی کاعلاج کرنے کے قابل ہو جائیں ؟
جواب.عورتوں کی تعلیم کے حامی ویسے ہی کہتے ہیں کہ ایسا ہو گا وہ کہتے ہیں وہ خواتین ڈاکٹر بن کر خواتین کا علاج کریں گی یہ ویسے ہی ایک عام بات ہے، شرعی دلیل نہیں.
صدر اسلام سے لیکر قریب قریب اس زمانے تک جب عباسی بر سر اقتدار آئے قران مجید کے سوا مسلمانوں کا کوئی تحریری قانون نہیں تھا. بد قسمتی سے اس ملک کے قدامت پسند مسلم عوام کو ابھی یہ گوارا نہیں کہ فقہ اسلامی کی بحث میں کوئی تنقیدی نقطۂ نظر اختیار کیا جاۓ. وہ بات بات پر خفا ہو جاتے اور ذرا سی تحریک پر بھی فرقہ وارانہ نزاعات کا دروازہ کھول دیتے ہییں ------تشکیل جدید الہیات اسلامیہ------ مسلمانوں خاص طور پر اس خطہ کے لوگوں کی بقا اسی میں ہے شریعت اسلامیہ کی تعبیر نو کریں اور فرقہ وارانہ مسائل اور اختلافی مسائل کا حل اجتماعی اجتہاد سے نکالیں
صدر اسلام سے لیکر قریب قریب اس زمانے تک جب عباسی بر سر اقتدار آئے قران مجید کے سوا مسلمانوں کا کوئی تحریری قانون نہیں تھا. بد قسمتی سے اس ملک کے قدامت پسند مسلم عوام کو ابھی یہ گوارا نہیں کہ فقہ اسلامی کی بحث میں کوئی تنقیدی نقطۂ نظر اختیار کیا جاۓ. وہ بات بات پر خفا ہو جاتے اور ذرا سی تحریک پر بھی فرقہ وارانہ نزاعات کا دروازہ کھول دیتے ہییں ------تشکیل جدید الہیات اسلامیہ------
ReplyDeleteمسلمانوں خاص طور پر اس خطہ کے لوگوں کی بقا اسی میں ہے شریعت اسلامیہ کی تعبیر نو کریں اور فرقہ وارانہ مسائل اور اختلافی مسائل کا حل اجتماعی اجتہاد سے نکالیں