اسلام کے شروع ہوتے ہی زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں موقوف نہیں ہو گئی تھیں، بلکہ اسلام کے زمانے میں بھی جاہلیت کے زمانے کی بہت سی رسموں پر جب تک کہ ان کے خلاف کوئی حکم نہیں ہوا ،عمل درآمد رہا. غلامی کی رسم چونکہ پوری دنیا میں جاری و ساری تھی اس لیے غلامی کی رسم پر بھی جب تک آیت حریت نازل نہیں ہوئی کچھ تھوڑا سا عمل درآمد ہوا، مگر اس کے بعد ہر گز نہیں ہوا اوراسی لیے ہم کہتے ہیں کہ صرف اسلام ہی ایسا کامل دین ہے جس نے غلامی کو دنیا سے معدوم کرنا چاہا. اس میں کچھ شک نہیں کہ قبل نزول آیت حریت جو غلام موجود تھے ان کو اسلام نے دفعتہ (اسی وقت ) آزاد نہیں کیا اور نہ ان کے ان تعلقات کو توڑا جو بموجب رسم زمانہ جہالیت ان میں تھے. بلکہ آئندہ کی غلامی کو معدوم کیا اور موجودہ غلاموں کے لیے بہت سی تدبیریں ان کے رفتہ رفتہ آزاد ہو جانے کی کیں. مگر قران مجید میں جو متعدد جگہ لونڈیوں و غلاموں کا ذکر آیا ہے اور بعضی جگہ ان کی نسبت کچھ احکام بھی بیان ہوئے ہیں اس سے لوگ متعجب ہونگے کہ اگر غلامی معدوم ہو گئی تھی تو وہ احکام قرآن مجید میں کیوں آئے تھے. اس چیز نے بڑ ے بڑے عالموں کو دھوکہ دیا ہے اور غلطی میں ڈالا ہے ،مگر سمجھ لینا چاہے کہ وہ تمام احکام انہیں موجودہ لونڈیوں و غلاموں کی نسبت ہیں جو بموجب رسم جاہلیت اور قبل نزول آیت حریت کے غلام ہو چکے تھے اور جن کو اسلام نے بھی (فوری) آزاد نہیں کیا تھا. چنانچہ ان تمام آیتوں میں جن میں لونڈی و غلام کا ذکر ہے ایک بھی ایسا لفظ نہیں ہے جو آئندہ کی غلامی پر جس کو ہم بلفظ رقیت مستقبلہ تعبیر کریں گے، دلالت کرتا ہے. پیغمبر صاحب(ص) نے کھلم کھلا فرما دیا کہ، " یعنی لڑائی کے بعد احسان کر کے یا فدیه لے کر ان کو چھوڑ دو"(تہذیب الاخلاق ). امام ابو حنیفہ (رح) تو قیدیوں کا چھوڑنا کسی طرح جائز نہیں سمجھتے ،مگر امام شافعی(رح) اور امام احمد بن حنبل (رح) فرماتے ہیں کہ قیدیوں کا قتل کرنا بھی جائز ہے اور لونڈی و غلام بنانا بھی جائز ہے اور احسان رکھ کر اور فدیه لے کر چھوڑ دینا بھی جائز ہے. چنانچہ تفسیر احمدی میں لکھا ہے. شافعی اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ امام مختار ہے چاہے قیدیوں کو قتل کرے، چاہے لونڈی و غلام بناۓ،چاہے احسان رکھ کر چھوڑ دے، چاہے فدیه میں مال لے کر یا مسلمان قیدیوں کے بدلے چھوڑ دے. اور تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے." اور لوگوں کی یہ رائے ہے کہ آیت "منا بعد و اما فداء" آیت محکم ہے اور جو مرد عاقل و بالغ کافروں کی طرف سے قید میں پڑیں ان کی نسبت امام کو اختیار ہے چاہے قتل کرے چاہے ان پر احسان کر کے بغیر کچھ لیے چھوڑ دے ،چاہے فدیه میں مال لے کر یا مسلمان قیدیوں کے بدلے میں چھوڑ دے . اور اسی بات کو پسند کیا ہے عمر(رض) اور یہی بات پسند کی ہے حسن (رح)نے اور عطا (رح)نے اور بہت سے صحابیوں اور عالموں نے اور یہی قول ہے نوری(رح) کا اور شافعی (رح ) کا اور احمد اور اسحاق(رح) کا.
ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ جب مسلمان بہت ہو گئے اور ان کا خوب غلبہ ہو گیا تو اللہ عز و جل نے قیدیوں کے معاملے میں یہ آیت اتاری کہ قید کرنے کے بعد یا تو ان پر احسان رکھ کر یا کچھ چھڑائی لے کر چھوڑ دو. سب سے زیادہ صحیح یہی بات ہے اور اختیار کرنے کے لائق ہے، اس لیے رسول خدا(ص) نے اور ان کے بعد صحابہ(رض) نے اسی پر عمل کیا. الفاروق میں ہے کہ،حضرت عمر (رض) نے اگرچہ غلامی کو معدوم نہیں کیا اور شائد اگر کرنا بھی چاہتے تو نہیں کر سکتے تھے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ انہوں نے مختلف طریقوں سے اس کے رواج کو کم کر دیا اور جس قدر قائم رکھا اس خوبی سے رکھا کہ غلامی غلامی نہیں، بلکہ ہمسری رہ گئی . عرب میں تو انہوں نے سرے سے اس کا استیصال کر دیا. اور اس میں ان کو اس قدر اہتمام تھا کہ عنان خلافت ہاتھ میں لینے کے ساتھ پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکر(رض) کے زمانے میں قبائل میں سے جو لوگ لونڈی غلام بناۓ گئے تھے سب آزاد کر دیے اس کے ساتھ یہ اصول قائم کر دیا کہ اہل عرب کبھی کسی کے غلام نہیں ہو سکتے. حضرت عمر(رض) کا یہ قول کہ" عرب کا کوئی آدمی غلام نہیں ہو سکتا (کنز العمال میں امام شافعی کی روایت سے یہ قول منقول ہے )،اگرچہ بہت سے مجتہدین اور آئمہ فن نے ان کے اس اصول کو تسلیم نہیں کیا. امام احمد بن حنبل کا قول ہے میں یہ راۓ نہیں مانتا کہ اہل عرب غلام نہیں ہو سکتے. غیر قوموں کی نسبت وہ کوئی قاعدہ عام نہیں کر سکے (کیونکہ یہ بھی انتظامی مسئلہ لگتا ہے مذہبی نہیں) مگ اتنا کیا کہ عملی طور پر غلامی کو نہایت کم کر دیا. جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غلامی کا حکم تعلیمات اسلامی میں بنیادی طور پر ختم ہوچکا تھا.
0 comments:
Post a Comment