And remember Jesus the son of Mary said"O children of Israel! I am the Messenger of God(Sent) to you. Confirming the law(which came) before me. And giving glad tidings of a Messenger to come after me whose name shall be Ahmed"(61:6-- Alsaf-Alquran)
حضرت عیسیٰ -ع- نے حضرت محمد -ص-کی جو بشارت دی ہے وہ قران کریم کے مطابق اس طرح ہے." اور جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خدا کا قاصد بن کر اور مجھ سے پہلے جو تورات آئی ہے ،میں اس کی تصدیق کرتا ہوا،اور اپنے بعد "احمد" نام ایک پغمبر کی خوشخبری لے کر آیا ہوں.
مسلمانوں کے نزدیک خصوصی طور پر ، اناجیل میں جو نام مبارک " فارقلیط" استعمال ہوا ہے اس کے معنی احمد یا محمد کے ہیں. انجیل یوحنا باب 14 میں ایک آنے والے کی بشارت ان الفاظ میں ہے " اور میں اپنے باپ(خدا ،پہلی امتوں میں خدا کے لیے باپ کا لفظ بھی مستعمل تھا ) سے درخواست کرونگا اور وہ تمہیں دوسرا"فارقلیط" بخشے گا کہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا.(١٤-١٦) اس سے آگے اس طرح ہے" لیکن وہ " فارقلیط" جو روح القدس ہے،جسے باپ میرے نام سے بھجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا،اور سب باتیں جو کچھ کہ میں نے کہی ہیں تمہیں یاد دلائے گا"(١٤-٢٦)
مصنفین سیرت النبی لکھتے ہیں کہ " انجیل کی آیتوں میں حضرت عیسیٰ نے جس آنے والے پغمبر کی بشارت بار بار دی ہے اس کو لفظ "فارقلیط " سے تعبیر کیاہے، یہ لفظ عبرانی یا سریانی ہے،جس کے لفظی معنی ٹھیک محمد اور احمد کے ہیں،یونانی کے قدیم تراجم میں اس کا ترجمہ" پیریکلیو طاس " کیا گیا تھا،جو بعینہ فارقلیط اور احمد کا ہم معنی ہے ،مگر یہ دیکھ کر کہ اس سے اسلام کی تصدیق ہوتی ہے،ذرا سے تغیر سے"پیر یکلیوطاس " کی بجائے "پیریکلیطاس " کر دیا گیا ہے،جس کا ترجمہ اب عام طور سے"تسلی دہندہ" کیا جاتا ہے ،عیسائی اور مسلمان علماء کے درمیان اس لفظ کی تحقیق پر سینکڑوں برس سے مناظرہ قائم ہے،اور مسلمان علماء نے خود قدیمعیسائی علماء کی تحریروں سے یہ ثابت کیا ہے کہ صحیح لفظ " پیریکلیو طاس "ہے. سب سے زیادہ سیدھی بات یہ ہے کہ یہ فقرے حضرت عیسیٰ -ع- کی زبان سے نکلے تھے، ان کی زبان سریانی آمیز عبرانی تھی،یونانی نہ تھی،اس لیے جو لفظ ان کی زبان سے نکلا ہو گا، وہ عبرانی یا سریانی ہو گا،اس لیے یہ بالکل صاف ہے کہ انہوں نے فارقلیط کا لفظ کہا ہو گا،جو احمد یا محمد کا مرادف ہے ،جیسا کہ اوپر کی آیت میں قرآن کا دعویٰ ہے. (خطبات احمدیہ،خطبات بشارت محمدی،منقول از گارڈ فری ہیگنس صاحب-و-سیرت النبی از مولانا شبلی نعمانی ،علامہ سید سلمان ندوی )
اضافی معلومات.
Controversy----وکیپیڈیا میں یہ تضاد اس طرح بیان کیا گیا ہے.
The Paracletos - Periclytos Controversy or Periclytos - Paracletos Controversy is a controversy related to certain Biblical texts. According to Christian sources, the Greek word Paracletos is found in John 14:16, 15:26, 16:7 and 18:36. The Greek word Paracletos has been translated into English as "the praise worthy". Therfore meaning that Muhammad(pbuh) was foretold in the bible. The Paracletos - Periclytos Controversy thus enters as .a ..component of the Muslim/Christian debate over whether Muhammad is foretold in Biblical prophesy.
اردو زبان میں لکھی جانے والی سیرت کی مشہور کتابوں میں سےچھ جلدوں پر مشتمل ضیاالنبی میں،مصنف پیر محمد کرم شاہ نے بھی پہلی جلد میں "فارقلیط" بمعنی احمد -ص- پر سیر حاصل بحث کی ہے اور انجیل برناباس سے بھی استدلال کیا ہے. اگر کسی کو ضرورت ہو تو یہ معلومات متعلقہ کتاب میں سے ملاحظہ کی جا سکتی ہیں. انجیل برناباس جس مقدس فرد کے نام سے منسوب ہے ، حضرت عیسیٰ-ع- کے حواریوں میں سے ایک حواری یوسف برناباس بتایا جاتا ہے .برناباس کے معنی ہیں نصیحت کا فرزند(اعمال ٤-٣٦)
انجیل برناباس کی صحت و صداقت پرعیسائی حلقے معترض ہیں ،جن کا اسلامی سکالرز نے رد کیا ہے اور کہاہے کہ انجیل برناباس ہی اصل انجیل ہے.(دیکھیں مقدمہ انجیل برناباس اردو ترجمہ،ادرہ اسلامیات لاہور) ."فارقلیط "مبارک نام پر مزید مباحث ،خطبات شیخ احمد دیدات ،اردو ترجمہ ،میں بھی دیکھ سکتے ہیں.(جہانگیر بک ڈپو لاہور پاکستان). عبداللہ یوسف علی سے قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ نوٹ نمبر 5438اسی موضوع پر ہے .
اپنے موضوع کے اعتبار سے ہم یہاں ایک حقیقی واقعہ-دعوت اسلام " سے پیش کر رہے ہیں جس میں ایک پادری "فارقلیط" نام مبارک کی تحقیق و تصدیق کے بعد مسلمان ہو گیا تھا.کتاب"دعوت اسلام" ٹی ڈبلیو آرنلڈ ،جو کہ حضرت علامہ اقبال کے پروفیسر بھی رہے، نے لکھی ہے ،آرنلڈ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور آخر تک عیسائی ہی رہے. یہ اردو ترجمہ ان کی کتاب The preaching of Islam -کا ہے. ملاحظہ فرمائیں .
جن لوگوں نے مبلغین کی کوشش کے بغیر خود بخود اسلام اختیار کیا ان میں سب سے زیادہ عجیب و غریب اور مفصل حال ایک پادری کا ہے جو ایک مناظرے کی کتاب " تحفة الاريب في الرد على اهل الصليب" میں مذکور ہے. اس کتاب کو اس پادری نے مسلمان ہونے کے بعد عبداللہ بن عبدالله کے نام سے ١٤٤٠ع -1440-میں مسیحی مذہب کی تردید اور اسلام کی حمایت میں لکھا تھا. کتاب کے دیباچے میں اس نے اپنی زندگی کے حالّات لکھے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جزیرہ میورقه- Majorca- میں آسودہ حال ماں باپ کے گھر میں پیدا ہوا تھا. اس کی تعلیم بچپن ہی سے اس طریق پر ہوئی جس سے اسے پادری بنانا مقصود تھا. چنانچہ چھ برس کی عمر سے اسے انجیل پڑھنے بٹھا دیا گیا اور اس نے انجیل کہ بہت سے حصے زبانی یاد کرے لیے . نحو اور منطق پڑھنے کے بعد اسے صوبہ قطلونیہ کے شہر لاردہ کی یونیورسٹی میں بھیج دیا گیا،جہاں اس نے طبیعیات اور ہئیت کے مطالعے کے بعد اپنے آپ کو چار سال تک محض دینیات کی تحصیل کے لیے وقف کر دیا. اس کے بعد وہ بولونیہ -Bologna-کی مشہور یونیورسٹی میں گیا جو اس وقت شہرہ آفاق تھی . وہ لکھتا ہے کہ میں ایک عمر رسیدہ پادری کے گھر میں ٹھہرا جس کا نام نکولس مارتل تھا . لوگ اس کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے علم و فضل کی وجہ سے اسے بولونیہ میں بڑا رتبہ حاصل تھا. وہ زہد اور پارسائی میں یگانہ روزگار تھا اور تمام اطراف عالم سے بادشاہ اور دوسرے لوگ اس کے پاس مشکل مسائل حل کرنے کے لیے بھیجتے تھے اور بیش قیمت تحائف بھی اس کی خدمت میں پیش کرتے تھے....اتفاقا ایک دن وہ پادری بیمار ہو گیا اور درس گاہ میں پڑھانے کے لیے نہ جا سکا . طالب علم ،جو اس کے درس میں حاضر رہا کرتے تھے ،اس کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے مختلف علمی مسائل پر بحث کرنے لگے ،یہاں تک کہ مباحثے کے دوران میں خدا کے اس کلام کا ذکر آیا جو اس کے پیغمبر حضرت عیسیٰ-ع- کی زبان سے ادا ہوا تھا کہ"میرے بعد ایک نبی آئے گا جس کا نام فارقلیط (جس کا عربی ترجمہ احمد ہے ) ہو گا" اس کلام پر دیر تک گرما گرم بحث ہوتی رہی ،مگر کوئی بات فیصل نہ ہو سکی اور آخر کار مجلس برخاست ہو گئی.
جب میں اپنے استاد کے گھر واپس آیا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ" آج میری غیر حاضری میں تم لوگوں نے کس مضمون پر بحث کی؟" میں نے اسے بتایا کہ لفظ "فارقلیط" پر بحث ہوئی ،مگر ہم کسی ایک بات پر متفق نہ ہو سکے ....پادری نے پوچھا کہ خاص تم نے اس مسلے کا کیا حل پیش کیا؟ میں نے عرض کی کہ فلاں عالم نے انجیل کی تفسیر میں جو لکھا ہے وہی میں نے بیان کر دیا. یہ سن کر بولا کہ" حق بات کے قریب تم پہنچ گئے تھے،تاہم بہت دور رہے...اس مقدس نام کی تفسیر کوئی شخص ان علماء کے نہیں کرسکتا جو راسخ العلم ہیں مگر تم میں سے ابھی تک کسی شخص نے علم کے میدان میں اتنی ترقی نہیں کی.
یہ باتیں سن کر میں پادری کے قدموں پر گر پڑا،اس کے پاؤں کو بوسسہ دیا اور اس سے عرض کی"اے میرے آقا! آپ جانتے ہیں کہ میں ایک دور دراز ملک سے آپ کے پاس آیا ہوں.دس سال تک میں نے آپ کی خدمت گزاری کی ہے اور میں نے وہ وہ علمی فوائد آپ سے حاصل کے ہیں جو بیان سے باہر ہیں. اب اس مبارک نام کی تفسیر کر کے مجھ پر اپنے احسانات کی تکمیل کیجئیے" یہ سن کربوڑھا پادری رونے لگا اور کہا"اے میرے بیٹے! بے شک تم مجھے بہت عزیز ہو، کیونکہ تم نے میری بہت خدمت کی ہے. فی الواقع اس مبارک نام کے معنی دریافت کرنے میں بڑا فائدہ ہے، مگر مجھے خوف ہے کہ اگر میں نے اس کے معنی تم پر ظاہر کر دے تو عیسائی تجھے فورا مار ڈالیں گے".
یہ سن کر میں نے کہا"قسم ہے مجھ کو خدائے بزرگ کی اور قسم ہے انجیل کی صداقت کی اور اس کے لانے والے کی کہ آپ کی اجازت کے بغیر آپ کا راز کسی پر فاش نہیں کرونگا.
کچھ گفت و شنید کے بعد پادری نے کہا ،اے فرزند! تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ "فارقلیط" پیغمبر اسلام (حضرت) محمد -ص-کے اسمائے مبارکہ میں سے ایک نام ہے اور یہ وہی پیغمبر(پاک) ہیں جن پر وہ چوتھی کتاب نازل ہوئی جس کا اعلان دانیال نبی کی زبان سے ہوا تھا. پیغمبر اسلام کا دین یقیننا سچا دین ہے اور اس کا مذہب وہی شان دار اور پر نور مذہب ہے جس کا ذکر انجیل میں آیا ہے.
پادری نے مزید کہا کہ"اے فرزند! خدا نے مجھ پر اسلام کی فضیلت اور پیغمبر اسلام-ص- کی عظمت کا بڑھاپے میں انکشاف کیا ہے .
پادری نے بڑھاپے سمیت بہت ساری ذاتی وجوہات اور مشکلات بھی بتائیں اور یہ معذوری بھی ظاہر کی کہ، اگرچہ دین اسلام سچا ہے لیکن میں مسلم ہونے کا اعلان نہیں کر سکتا . اس نے مزید اضافہ کیا کہ:
اب میں عمر رسیدہ ہوں اور جسمانی لحاظ سے کمزور ہوں ، لیکن اس سے میری یہ مراد نہیں کہ یہ عذر قابل پذیرائی ہے بلکہ خدا کی حجت مجھ پر بدستور قائم ہے. اگر تمہاری عمر میں خدا کی طرف مجھ کو یہ ہدایت حاصل ہوتی تو میں سب چیزیں چھوڑ کر اسلام کا سچا دین قبول کر لیتا ،لیکن دنیا کی حجت تمام گناہوں کی جڑ ہے . تم کو معلوم ہے کہ عیسائیوں میں مجھ کو کیا درجہ حاصل ہے؟ اور وہ میری کیسی عزت اور توقیر کرتے ہیں. اب ان کو اگر معلوم ہو جائےکہ میرا میلان خاطر اسلام کی طرف ہے تو وہ سب مل کر مجھ کو فورا قتل کر ڈالیں گے. فرض کرو کہ میں ان کی داروگیر سے بچ نکلوں اور مسلمانوں کے ملک میں بخریت پہنچ جاؤں تو پھر کیا نتیجہ ہو گا.؟ اگر میں نے مسلمانوں سے کہا کہ میں مسلمان ہو کر تمہارے درمیان آباد ہونا چاہتا ہوں تو وہ مجھ سے کہیں گے کہ سچا دین کو قبول کر کے تم اپنے اوپر احسان کرو گے،کیونکہ خدا کے مواخذے سے بچ جاؤ گے،لیکن تمہارے مسلمان ہونے سے ہمیں کیا فائدہ. جب یہ جواب ملے گا تو سوائے اس کے کیا ہو گا کہ میں ستر برس کا بڈھا مفلس مسلمانوں کی زبان سے ناواقف، فاقہ کشی سے مرنے کے لیے ان کے درمیان پڑا رہوں گا اور انکو اس بات کی مطلق خبر نہ ہو گی کہ اس سے پیشتر مجھ کو کیا درجہ و مرتبہ حاصل تھا. پس میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور اسے گواہ کرتا ہوں کہ میں حضرت عیسیٰ کے دین پر اور وحی پر، جو اس پر نازل ہوئی،ثابت قدم رہوں.
میں نے کہا" تو کیا میرے حق میں آپ کی نصیحت یہ ہےکہ میں مسمانوں کے ملک چلا جاؤں اور ان کا دین ختیار کر لوں ؟
پادری نے جواب دیا ،ہاں اگر تم عقل مند ہو اور اپنی نجات چاہتے ہو تو فورا جاؤ اور اسلام قبول کر کے دنیا اور آخرت کی نعمتیں حاصل کرو. لیکن یاد رہے کہ اس وقت تک ہماری ان باتوں کی کسی کو اطلاع نہیں ہے، آئندہ بیحد محتاط رہو اور اس راز کو پوشیدہ رکھو، کیونکہ اگر ان باتوں کا ایک شمہ بھی کسی پر ظاہر ہو گیا تو لوگ تمہیں فورا مار ڈالیں گے اور میں تمہارے لیے کچھ نہ کر سکوں گا. مجھ پر الزام لگانے سے تم کو کچھ نفع نہ ہو گا،کیونکہ جو کچھ میں تمہارے خلاف کہوں گا،اس کو تو عیسائی سچ سمجھیں گے اور جو کچھ تم میرے خلاف کہو گے اس پر کوئی یقین نہیں کرے گا. اگر تم نے اس بارے میں ایک لفظ بھی زبان سے کہا تو میں تمہارے خون سے بالکل بری الزمہ ہوں.
میں نے کہا"خدا مجھ کو اس خیال تک سے محفوظ رکھے کہ میں اس راز کو فاش کروں"
غرض اپنے استاد کے حسب منشاء میں نے وعدہ کیا اور سامان سفر تیار کر کے اس سے رخصت ہوا. اس نے میرے حق میں دعا کی اور سفر کے اخراجات کے لیے مجھ کو پچاس دینار دئیے.
عبداللہ نے اس کے بعد جو سفر کیا، اس کے متعلقه بیان اگرچہ یہاں طوالت کا باعث معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ بہت ہی دلچسپ اور ایمان افروز ہے. وہ مزید لکھتا ہے کہ،
پادری کو خیر باد کہنے کے بعد،اول میں نے اپنے وطن شہر میورقه کا رخ کیا اور وہاں چھ ماہ تک ٹھہرا . پھر جہاز میں سوار ہو کر جزیرہ صیقلیہ(سسلی) کو گیا. یہاں پانچ مہینے تک اس انتظار میں ٹھہرا رہا کہ کوئی جہاز بلاد اسلامیہ کو جاتا ہوا ملے. آخر کار ایک جہاز جو تیونس کو جارہا تھا، آیا اور میں اس میں سوار ہو گیا. شام کے دھندلکے میں ہم نے صیقلیہ کو خیر باد کہا اور ایک دن دوپہر کے وقت جہاز نے تیونس کی بندر گاہ میں لنگر ڈالا. جب میں جہاز سے اتر کر تیونس کے چنگی خانے میں آیا تو چند عیسائی سپاہی میرا حال سن کر میرے پاس آئے اور مجھ کو اپنے گھر لے گئے .تیونس کے چند دیگر عیسائی تاجر بھی ان کے ہمراہ تھے. چار ماہ تک میں ان عیسائیوں کے ہاں ٹھہرا اور اس زمانے میں انہوں نے میری بہت خاطر مدارات کی.
اس کے بعد عبداللہ مذکورہ یوسف طبیب نامی ایک شخص سے ملا جو عیسائیوں کی زبان جانتا تھا اور یوسف نامی شخص سلطان کا طبیب مقرب اور ملازمین خاص میں سے تھا. یوسف اسے سلطان کے محل میں لے آیا تاکہ عبداللہ دائرہ اسلام میں داخل ہو سکے.
عبداللہ مزید لکھتا ہے کہ، سلطان نے میری عمر پوچھی،میں نے عرض کیا کہ میری عمر پینتیس سال کی ہے .اس کے بعد پڑھنے پڑھانے کا حال پوچھا اور میں نے اس کا جواب عرض کیا. سلطاں نے کہا" ہم تمہارا خیر مقدم کرتے ہیں-اب تم مسلمان ہو جاؤ اور خدا کی تم پر رحمت ہو"
میں نے یوسف طبیب سے، جو اس وقت میرا ترجمان تھا، کہا کہ سلطاں کی خدمت میں میری طرف سے عرض کریں کہ جو شخص اپنا مذہب چھوڑتا ہے،اس کو اکثر لوگ سخت سست کہتے ہیں اور اس کے بارے میں تہمتیں تراشتے ہیں. اس لیے میں سلطان سے اجازت چاہتا ہوں کی عیسائی سوداگروں اور عیسائیوں کو دربار میں بلا کر میری نسبت پوچھا جائے تاکہ سلطان کو معلوم ہو کہ میرے بارے میرے ہم مذہب کیا کہتے ہیں. اس کے بعد میں مسلمان ہو جاؤں گا .
سلطان نے ترجمان کے ذریعے سے جواب دیاکہ، تمہاری درخوست بالکل ایسی ہے جیسی کے عبداللہ بن سلام-رض- نے قبول اسلام کے وقت رسول خدا-ص- سے کی تھی. اس کے بعد سلطان نے عیسائی سپاہیوں کو اور بعض عیسائی سوداگروں کو بلایا اور اپنی نشست گاہ کے قریب ہی ایک کمرے میں مجھ کو بٹھادیا . پھر سلطان نے عیسائیوں سے پوچھا کہ فلاں جہاز سے جو پادری ہمارے ملک میں اترا تھا،اس کے بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟عیسائیوں نے جواب دیا کہ ہمارے دین کا بہت بڑا عالم ہے اور ہمارے علماءکہتے ہیں کہ انہوں نے علم و فضل میں اور پرہیزگاری میں اس سے بڑھ کر کوئی آدمی نہیں دیکھا.
سلطان نے پھر عیسائیوں سے پوچھا کہ" اگر یہ پادری مسلمان ہو جائے تو تم اس کی نسبت کیا خیال کرو گے؟" انہوں نے جواب دیا کہ معاذ الله! وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتا.
جب سلطان عیسائیوں کی رائے سن چکا تو اس نے مجھ کو بلایا اور میں نے اسی وقت سب عیسائیوں کے سامنے کلمہ شہادت پڑھا.عیسائیوں نے ہاتھ اٹھا کر اپنے چہروں پر صلیب کا نشان بنایا اور کہا کہ" اس شخص نے محض شادی کرنے کے شوق میں یہ حرکت کی ہے.،کیونکہ ہمارے ہاں پادری شادی نہیں کر سکتے " پھر سب عیسائی بہت رنجیدہ خاطر ہو کر دربار سے آٹھ گئے( تحفة الاريب في الرد على اهل الصليب،ص٥-٨ ،مطبوعہ ١٢٩٠ھ)
مسلمان ہونے کے بعد اس شخص کے لئے سلطان ابوالعباس احمد(١٣٧٠-١٣٩٤ع) کی طرف سے چار دینار روزانہ مقرر ہوگئے اور کچھ عرصے بعد چنگی خانہ اس کی نگرانی میں دے دیا گیا. اس شخص کا مزار تیونس میں اب تک موجود ہے. لوگ اس کی زیارت کو جاتے ہیں اور اس کی بہت تعظیم کرتے ہیں.(-The preaching of Islam by Prof.T.W. Arnld -دعوت اسلام --مترجم ڈاکٹر شیخ عنایت الله-ص-٤٥٦ -٤٦١ -ملخص)
یہ سن کر میں نے کہا"قسم ہے مجھ کو خدائے بزرگ کی اور قسم ہے انجیل کی صداقت کی اور اس کے لانے والے کی کہ آپ کی اجازت کے بغیر آپ کا راز کسی پر فاش نہیں کرونگا.
کچھ گفت و شنید کے بعد پادری نے کہا ،اے فرزند! تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ "فارقلیط" پیغمبر اسلام (حضرت) محمد -ص-کے اسمائے مبارکہ میں سے ایک نام ہے اور یہ وہی پیغمبر(پاک) ہیں جن پر وہ چوتھی کتاب نازل ہوئی جس کا اعلان دانیال نبی کی زبان سے ہوا تھا. پیغمبر اسلام کا دین یقیننا سچا دین ہے اور اس کا مذہب وہی شان دار اور پر نور مذہب ہے جس کا ذکر انجیل میں آیا ہے.
پادری نے مزید کہا کہ"اے فرزند! خدا نے مجھ پر اسلام کی فضیلت اور پیغمبر اسلام-ص- کی عظمت کا بڑھاپے میں انکشاف کیا ہے .
پادری نے بڑھاپے سمیت بہت ساری ذاتی وجوہات اور مشکلات بھی بتائیں اور یہ معذوری بھی ظاہر کی کہ، اگرچہ دین اسلام سچا ہے لیکن میں مسلم ہونے کا اعلان نہیں کر سکتا . اس نے مزید اضافہ کیا کہ:
اب میں عمر رسیدہ ہوں اور جسمانی لحاظ سے کمزور ہوں ، لیکن اس سے میری یہ مراد نہیں کہ یہ عذر قابل پذیرائی ہے بلکہ خدا کی حجت مجھ پر بدستور قائم ہے. اگر تمہاری عمر میں خدا کی طرف مجھ کو یہ ہدایت حاصل ہوتی تو میں سب چیزیں چھوڑ کر اسلام کا سچا دین قبول کر لیتا ،لیکن دنیا کی حجت تمام گناہوں کی جڑ ہے . تم کو معلوم ہے کہ عیسائیوں میں مجھ کو کیا درجہ حاصل ہے؟ اور وہ میری کیسی عزت اور توقیر کرتے ہیں. اب ان کو اگر معلوم ہو جائےکہ میرا میلان خاطر اسلام کی طرف ہے تو وہ سب مل کر مجھ کو فورا قتل کر ڈالیں گے. فرض کرو کہ میں ان کی داروگیر سے بچ نکلوں اور مسلمانوں کے ملک میں بخریت پہنچ جاؤں تو پھر کیا نتیجہ ہو گا.؟ اگر میں نے مسلمانوں سے کہا کہ میں مسلمان ہو کر تمہارے درمیان آباد ہونا چاہتا ہوں تو وہ مجھ سے کہیں گے کہ سچا دین کو قبول کر کے تم اپنے اوپر احسان کرو گے،کیونکہ خدا کے مواخذے سے بچ جاؤ گے،لیکن تمہارے مسلمان ہونے سے ہمیں کیا فائدہ. جب یہ جواب ملے گا تو سوائے اس کے کیا ہو گا کہ میں ستر برس کا بڈھا مفلس مسلمانوں کی زبان سے ناواقف، فاقہ کشی سے مرنے کے لیے ان کے درمیان پڑا رہوں گا اور انکو اس بات کی مطلق خبر نہ ہو گی کہ اس سے پیشتر مجھ کو کیا درجہ و مرتبہ حاصل تھا. پس میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور اسے گواہ کرتا ہوں کہ میں حضرت عیسیٰ کے دین پر اور وحی پر، جو اس پر نازل ہوئی،ثابت قدم رہوں.
میں نے کہا" تو کیا میرے حق میں آپ کی نصیحت یہ ہےکہ میں مسمانوں کے ملک چلا جاؤں اور ان کا دین ختیار کر لوں ؟
پادری نے جواب دیا ،ہاں اگر تم عقل مند ہو اور اپنی نجات چاہتے ہو تو فورا جاؤ اور اسلام قبول کر کے دنیا اور آخرت کی نعمتیں حاصل کرو. لیکن یاد رہے کہ اس وقت تک ہماری ان باتوں کی کسی کو اطلاع نہیں ہے، آئندہ بیحد محتاط رہو اور اس راز کو پوشیدہ رکھو، کیونکہ اگر ان باتوں کا ایک شمہ بھی کسی پر ظاہر ہو گیا تو لوگ تمہیں فورا مار ڈالیں گے اور میں تمہارے لیے کچھ نہ کر سکوں گا. مجھ پر الزام لگانے سے تم کو کچھ نفع نہ ہو گا،کیونکہ جو کچھ میں تمہارے خلاف کہوں گا،اس کو تو عیسائی سچ سمجھیں گے اور جو کچھ تم میرے خلاف کہو گے اس پر کوئی یقین نہیں کرے گا. اگر تم نے اس بارے میں ایک لفظ بھی زبان سے کہا تو میں تمہارے خون سے بالکل بری الزمہ ہوں.
میں نے کہا"خدا مجھ کو اس خیال تک سے محفوظ رکھے کہ میں اس راز کو فاش کروں"
غرض اپنے استاد کے حسب منشاء میں نے وعدہ کیا اور سامان سفر تیار کر کے اس سے رخصت ہوا. اس نے میرے حق میں دعا کی اور سفر کے اخراجات کے لیے مجھ کو پچاس دینار دئیے.
عبداللہ نے اس کے بعد جو سفر کیا، اس کے متعلقه بیان اگرچہ یہاں طوالت کا باعث معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ بہت ہی دلچسپ اور ایمان افروز ہے. وہ مزید لکھتا ہے کہ،
پادری کو خیر باد کہنے کے بعد،اول میں نے اپنے وطن شہر میورقه کا رخ کیا اور وہاں چھ ماہ تک ٹھہرا . پھر جہاز میں سوار ہو کر جزیرہ صیقلیہ(سسلی) کو گیا. یہاں پانچ مہینے تک اس انتظار میں ٹھہرا رہا کہ کوئی جہاز بلاد اسلامیہ کو جاتا ہوا ملے. آخر کار ایک جہاز جو تیونس کو جارہا تھا، آیا اور میں اس میں سوار ہو گیا. شام کے دھندلکے میں ہم نے صیقلیہ کو خیر باد کہا اور ایک دن دوپہر کے وقت جہاز نے تیونس کی بندر گاہ میں لنگر ڈالا. جب میں جہاز سے اتر کر تیونس کے چنگی خانے میں آیا تو چند عیسائی سپاہی میرا حال سن کر میرے پاس آئے اور مجھ کو اپنے گھر لے گئے .تیونس کے چند دیگر عیسائی تاجر بھی ان کے ہمراہ تھے. چار ماہ تک میں ان عیسائیوں کے ہاں ٹھہرا اور اس زمانے میں انہوں نے میری بہت خاطر مدارات کی.
اس کے بعد عبداللہ مذکورہ یوسف طبیب نامی ایک شخص سے ملا جو عیسائیوں کی زبان جانتا تھا اور یوسف نامی شخص سلطان کا طبیب مقرب اور ملازمین خاص میں سے تھا. یوسف اسے سلطان کے محل میں لے آیا تاکہ عبداللہ دائرہ اسلام میں داخل ہو سکے.
عبداللہ مزید لکھتا ہے کہ، سلطان نے میری عمر پوچھی،میں نے عرض کیا کہ میری عمر پینتیس سال کی ہے .اس کے بعد پڑھنے پڑھانے کا حال پوچھا اور میں نے اس کا جواب عرض کیا. سلطاں نے کہا" ہم تمہارا خیر مقدم کرتے ہیں-اب تم مسلمان ہو جاؤ اور خدا کی تم پر رحمت ہو"
میں نے یوسف طبیب سے، جو اس وقت میرا ترجمان تھا، کہا کہ سلطاں کی خدمت میں میری طرف سے عرض کریں کہ جو شخص اپنا مذہب چھوڑتا ہے،اس کو اکثر لوگ سخت سست کہتے ہیں اور اس کے بارے میں تہمتیں تراشتے ہیں. اس لیے میں سلطان سے اجازت چاہتا ہوں کی عیسائی سوداگروں اور عیسائیوں کو دربار میں بلا کر میری نسبت پوچھا جائے تاکہ سلطان کو معلوم ہو کہ میرے بارے میرے ہم مذہب کیا کہتے ہیں. اس کے بعد میں مسلمان ہو جاؤں گا .
سلطان نے ترجمان کے ذریعے سے جواب دیاکہ، تمہاری درخوست بالکل ایسی ہے جیسی کے عبداللہ بن سلام-رض- نے قبول اسلام کے وقت رسول خدا-ص- سے کی تھی. اس کے بعد سلطان نے عیسائی سپاہیوں کو اور بعض عیسائی سوداگروں کو بلایا اور اپنی نشست گاہ کے قریب ہی ایک کمرے میں مجھ کو بٹھادیا . پھر سلطان نے عیسائیوں سے پوچھا کہ فلاں جہاز سے جو پادری ہمارے ملک میں اترا تھا،اس کے بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟عیسائیوں نے جواب دیا کہ ہمارے دین کا بہت بڑا عالم ہے اور ہمارے علماءکہتے ہیں کہ انہوں نے علم و فضل میں اور پرہیزگاری میں اس سے بڑھ کر کوئی آدمی نہیں دیکھا.
سلطان نے پھر عیسائیوں سے پوچھا کہ" اگر یہ پادری مسلمان ہو جائے تو تم اس کی نسبت کیا خیال کرو گے؟" انہوں نے جواب دیا کہ معاذ الله! وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتا.
جب سلطان عیسائیوں کی رائے سن چکا تو اس نے مجھ کو بلایا اور میں نے اسی وقت سب عیسائیوں کے سامنے کلمہ شہادت پڑھا.عیسائیوں نے ہاتھ اٹھا کر اپنے چہروں پر صلیب کا نشان بنایا اور کہا کہ" اس شخص نے محض شادی کرنے کے شوق میں یہ حرکت کی ہے.،کیونکہ ہمارے ہاں پادری شادی نہیں کر سکتے " پھر سب عیسائی بہت رنجیدہ خاطر ہو کر دربار سے آٹھ گئے( تحفة الاريب في الرد على اهل الصليب،ص٥-٨ ،مطبوعہ ١٢٩٠ھ)
مسلمان ہونے کے بعد اس شخص کے لئے سلطان ابوالعباس احمد(١٣٧٠-١٣٩٤ع) کی طرف سے چار دینار روزانہ مقرر ہوگئے اور کچھ عرصے بعد چنگی خانہ اس کی نگرانی میں دے دیا گیا. اس شخص کا مزار تیونس میں اب تک موجود ہے. لوگ اس کی زیارت کو جاتے ہیں اور اس کی بہت تعظیم کرتے ہیں.(-The preaching of Islam by Prof.T.W. Arnld -دعوت اسلام --مترجم ڈاکٹر شیخ عنایت الله-ص-٤٥٦ -٤٦١ -ملخص)
0 comments:
Post a Comment