فقہء ظاہری اور امام ابن حزم ؒ۔۔۔۔ شریعت اسلامیہ میں (۱) تحقیق: چوہدری طالب حسین
اجتہاد سے بیزاری ،فقہی جمود اور اس کے تاریخی اسباب بیان کرتے ہونے ،حضرت علامہ اقبال(رح)نے فرمایا ،اسلام کے برگزید افراد میں سے پانچویں صدی ہجری کے امام ابن حزم نے قیاس اور اجماع کے اصولوں کو رد کیا، آٹھویں صدی کے امام ابن تیمیہ(رح) نے فقہی مذاہب کی قطعیت سے انکار کیا اور دسویں صدی کے علامہ سیوطی نے تقلید کو رد کر کے اجتہاد کو از سر نو زندہ کیا.(علامہ اقبال کا تصور اجتہاد -اقبال اکادمی لاہور.-ص-١٩)اپنے ایک خطبے میں اقبال یہ واضح کرتے ہیں کہ، ہئیت اسلامی میں اصول حرکت کا نام ہی اجتہاد ہے. لیکن
اجتہاد سے بیزاری ،فقہی جمود اور اس کے تاریخی اسباب بیان کرتے ہونے ،حضرت علامہ اقبال(رح)نے فرمایا ،اسلام کے برگزید افراد میں سے پانچویں صدی ہجری کے امام ابن حزم نے قیاس اور اجماع کے اصولوں کو رد کیا، آٹھویں صدی کے امام ابن تیمیہ(رح) نے فقہی مذاہب کی قطعیت سے انکار کیا اور دسویں صدی کے علامہ سیوطی نے تقلید کو رد کر کے اجتہاد کو از سر نو زندہ کیا.(علامہ اقبال کا تصور اجتہاد -اقبال اکادمی لاہور.-ص-١٩)اپنے ایک خطبے میں اقبال یہ واضح کرتے ہیں کہ، ہئیت اسلامی میں اصول حرکت کا نام ہی اجتہاد ہے. لیکن
روایت نےاجتہاد کے تصور کی درجہ بندی کر کے اسے فقہی مذا ہب میں محدود کر دیا. جس سے اسلامی فقہہ اور قانون جامد اور میکانکی بن کر رہ گنے. علامہ اقبال اجتہاد کی ان درجہ بندوں کو ترک کر کے اجتہاد کے بنیادی یعنی اجتہاد مطلق کے معنوں کو ترجیح دیتے ہیں؟علامہ اقبال کا کہنا ہے کہ اہل سنت اجتہاد مطلق کے نظری امکانات کو تو رد نہیں کرتے لیکن مذاہب فقہ عملی طور پر اس کے امکان کو تسلیم نہیں کرتے. اقبال کی نظر میں، قرآن زندگی کے متعلق یقینی طور پر ایک حرکی نقطہ نگاہ رکھتا ہے اس لیے اس کی بنیاد پرقائم شدہ نظام قانون میں اس قسم کا انداز و میلان نہایت عجیب معلوم ہوتا ہے.(أیضا-ص-١٨)
علامہ کی خواہش تھی کی اجتہاد کے زریعہ وقت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہونے نصوص کی تعبیر و تشریح ہوتی رہنی چاہتے اور مقاصد شریعت کو برونے کار لاتے ہونے اجتہاد کا عمل جاری رہنا چاہے .ہمارے پاس مختلف مسلک سے متعلقہ عظیم فقہی ذخیرہ موجود ہے جسے قرآن و سنت کی نصوص سے حکم اخذ کرتے وقت بطور نظیر اور روشنی کے استعمال کیا جا سکتا ہے. اس ضمن میں ہم نے ایک تعارفی نوٹ فقہ ظاہری اور اس کے مشہور امام ابن حزم کی بابت لکھا ہے،تاکہ قارئین اس سے فائدہ اٹھا سکیں.
فقہ ظاہری سے متعلق ائمہ کرام کے تذکروں میں جب تک امام ابن حزم(رح) کا نام نہ آئے تو تعارف ادھورا رہ جاتا ہے.فقہ ظاہری کے بانی امام ابو سلیمان داؤد بن علی بن خلف-رح ( پ-٢٠٠ ہجری ) اصفہانی تھے. آپ بغداد میں سکونت پزیر رہے اور وہیں ٢٧٠ ح میں وفات پائی. امام داؤد پہلے شخص تھے جنہوں نے ظواہر نصوص سے احکام اخذ کرنے کا دعوی کیا، اسے بطور مسلک اپنایا اور احکام میں قیاس اور رائے کی نفی کی.
آپ امام شافعی(رح) کے تلامذہ کے شاگرد تھے. امام داؤد شروع میں فقہ شافعی(رح) سے وابستہ رہے اور آپ شافعی اصول کے مقلد تھے.امام شافعی کے فضائل پر انہوں نے دو کتابیں بھی تصنیف کی تھیں. بعد میں آپ نے اپنے لیے الگ فقہی مسلک پسند کر لیا.
امام ابن حزم(رح) کا پورا نام علی بن احمد بن سعیدبن ہضم، کنیت ابو محمّد ہے اور ابن حزم کے نام سے شہرت پائی. آپ اندلس کے شہر قرطبہ میں پیدا ہونے اور عمر کی ٧٢ بھاریں دیکھ کر ٤٥٢ ہجری میں فوت ہویے .
امام ابن حزم تقریباّ چار صد کتب کے مولف کہلاتے ہیں.آپ کی وہ کتابیں جنہوں نے فقہ ظاہری کی اشاعت میں شہرت پائی وہ المحلی اور" الاحکام" فی اصول الاحکام ہیں. المحلی فقہ ظاہری اور دیگر فقہ میں تقابل کا ایک موسوعہ ہے . یہ کئی اجزاء پر مشتمل ایک ضخیم فقہی کتاب ہے جس میں فقہ اور اصول فقہ کے ابواب شامل ہیں.المحلی کا اردو زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے.(اور اسکی تین جلدیں کبھی کبھی بازار میں آ جاتی ہیں لیکن اکثر نہیں ملتی) موخرالذکر کتاب کا مو ضو ع اصول فقہ ہے. کہتے ہیں کہ اگر یہ دونوں کتابیں نہ ہوتیں تو اس مسلک کا جاننے والا کوئی نہ ہوتا. ظاہری مسلک کے متبعین نہ ہونے کے با وجود یہ مسلک ہم تک جس زریعہ سے پہنچا ہے، وہ زریعہ یہ دونوں کتابیں ہی ہیں.(اصول فقہ -بک نمبر -٢٢- شریعہ اکیڈمی -فصل مسجد اسلامآباد)
فقہ ظاہری میں اجتہاد کے اصول کیا ہیں ؟..امام ابن حزم سورہ المائدہ -٣/٥ اور النساء ٥٩/٤ کا حوالہ دیتے ہیں --مباحث کے بعد لکھتے ہیں کہ صرف چار اصول ہیں جن سے احکام شریعت معلوم کئے جا سکتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں --١-- نصوص قرآن --٢-- نصوص احادیث رسول(ص)---٣--- امت کے تمام علماء کا اجما ع اور--٤--دلیل .
١ .قرآن مجید. امام ابن حزم فرماتے ہیں: قرآن مجید ہم پر اللہ تعالیٰ کا وہ عہد ہے جس کا اقرار اور جس پر عمل ہم پر لازم ہے تمام مسالک اسلامیہ کی طرح مسلک ظاہری میں بھی مصدر اول اور اصل قرآن مجید ہے. کسی مسلہء کا شر عی حکم معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کیا جاۓ گا. البتہ فقہاۓ ظاہریہ قرآنی الفاظ کے ظاہر پر عمل کے قائل ہیں.
٢.احادیث نبوی (ص) بھی فقہ ظاہری میں مصدر اصلی ہیں. امام ابن حزم فرماتے ہیں: جس نے قرآن یا نبی اکرم(ص)سے صحیح حدیث کو اپنے امام یا کسی اور شخص کے قول کی وجہ سے ترک کر دیا،خواہ وہ شخص اس صحیح حدیث کا راوی ہو یا غیر راوی ہو، تو اس نے ایسی چیز ترک کی جس کے اتباع کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور وہ چیز اختیار کی جس کے اعتبا ع کا حکم اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا. یہ حکم خداوندی کی خلاف ورزی ہے. فرمان الہی ہے --اے ایماں والو ! اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور اس سے روگردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو. اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کہتے ہیں کہ ہم نے (اللہ کا حکم)سن لیا مگر وہ(حقیقت میں) نہیں سنتے.(الانفال-٨:٢٠،٢١ ...قرآن مجید میں مذکورہ احکام اور احدث صحیحہ میں مذکورہ احکام وجوب کے اعتبار سے یکساں ہیں، اگرچہ صحت اور نقل و روایت کے اعتبار سے قرآنی احکام اور احکام احادیث میں فرق پایا جاتا ہے.
امام ابن حزم افعال نبوی کو فرض قرار نہیں دیتے، سواۓ اس کے جو فعل کسی حکم کا بیان ہو، البتہ افعال نبوی کی موافقت بہتر ہے، ہم پر صرف وھی لازم ہے جس کا حکم نبی اکرم(ص) نے دیا، یا جس چیز سے منع فرمایا . اس پر آپ (ص) نے سکوت اختیار کیا اور در گزر فرمایا تو وہ ہم پر بھی ساقط ہے. امام ابن حزم کہتے ہیں. سنان کی تین اقسام ہیں، قول نبی(ص) یا آپ کا فعل یا تقریر یعنی ایسی چیز جسے آپ نے دیکھا یا جانا،اور پھر اسے برقرار رکھا اور اس کا انکار نہیں کیا. آپ کا حکم فرض اور واجب ہے، سواۓ اس کے کہ کوئی دلیل اس کے وجوب کو مندوب کرنے والی ہو. آپ(ص) کا فعل لائق پیروی ہے، اس پر عمل کرنا واجب ہے، لیکن اگر نبی(ص) نے کسی حکم کی تنفیذ یا بیان و وضاحت میں کوئی فعل کیا ہو تو پھر اس پر عمل کرنا واجب ہے. آپ(ص) کی تقریر فقط مباح ہے، واجب یا مندوب نہیں. اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت میں ہم پر یہ فرض نہیں کیا کہ ہم بھی وہی کریں جو نبی(ص) نے کیا. بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا ہے. "تمہارے لیے رسول(ص) کی پیروی(کرنا) بہتر ہے -ا الاحزاب -٣٣:٢١. لہذا ہمارے لیے افعال رسول(ص) صرف مباح ہیں.کوئی فعل واجب قرار دینے کے لیے لفظ لنا(ہمارے لیے) کے بجانےعلینا(ہم پر) ہوتا ہے. ہم پر افعال نبی(ص) فراز قرار دینے کے لیے قرآن کا حکم یوں ہوتا .
لقد كان عليكم في رسول الله أسوة حسنة (الاحكام في أصول الا حکام ٤/٤٨).
معلوم ہوا کہ امام ابن حزم کے نزدیک نبی اکرم(ص) کے افعال اور تقریرات واجب یا مندوب نہیں،صرف مباح ہیں، افعال میں بھی صرف وہ فعل واجب ہے جو کسی حکم کی تنفیذ میں کیا گیا ہو، جیسے نبی اکرم(ص) نے فرما یا---"اور نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے."
اسی طرح آپ(ص) کا ان لوگوں کے گھروں کو جلا دینے کا ارادہ فرمانا جو نماز کے لیے مسجد میں نہیں جاتے تھے.(حدیث -رواة حضرت ابو ہریرہ -صحیح بخاری کتاب الاذان--٢١٣/٢).
اسی طرح آپ(ص) کا شرابی کو کوڑے مارنا ہے. نبی اکرم(ص) کے وہ افعال جو آپ نے نے کسی چیز کی نہی و ممانعت میں ادا فرماۓ یا کسی کے حکم میں افعال کیے،وہ بھی واجب ہیں. جیسے آپ(ص) نے دوران نماز حضرت عباس (رض) کو اپنے بائیں جانب سے دائیں جانب کر لیا. یہ اگرچہ فعل ہے لیکن یہ حضرت عباس (رض) کے لیے حکم ہے وہ آپ(ص) کے دائیں جانب کھڑے ہوں اور یہ آپ(ص) کے بائیں جانب کھڑے ہونے میں نہی ہے.
امام ابن حزم کہتے ہیں کہ اگر صحابی یہ کہے السنة كذا--یعنی سنت یہ ہے--يا امرنا بكذا یعنی ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا،تو یہ نبی اکر(ص) کی طرف منسوب نہیں ہے. اس کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آپ(ص) کا حکم مبارک ہے. جو قول کسی سے روایت ہی نہ کیا گیا ہو،وہ اس کا قول نہیں قرار دیا جا سکتا.( محولہ بالا کتابچہ-اصول فقہ نمبر -٢٢ -ص-٣٩ یا ٥١ ملخص -بین الاقوامی اسلامی یو نیورسٹی - شریعہ اکیڈمی فیصل مسجد اسلام آباد.)
سنت رسول(ص) کا تشریعی مقام جاننے کے لیے "فقہ ظاہری کے علمائے کرام نے دوسرے مسالک سے ہٹ کر اپنا طریقہ کار وضع کیا تھا . جس کی وجہ سے اخذ ا حکام پر بھی فرق پڑا. یہ سب کچھ دیکھنے کے لیے فقہ ظاہری کی کتابوں کو دیکھنا ہوتا ہے. آجکل فقہ مقارنہ سے استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے اور اس ضمن میں یہ اشد ضروری ہےکہ سارے فقہی مسالک کے بارے میں ایک مجتہد کو کلی علم ہو.تاکہ زمانے کی ضرویات پوری کرنے کے لیے مقصاد شریعت کو مد نظر رکھتے ہونے دین کے نصوص میں وسعت نظری پیدا ہو سکے اور استنباط احکام میں لوگوں کے مصالح
بھی سامنے رکھتے ہونے کامیابی یقینی اور فائدہ مند ہو سکے
خبر واحد.
امام ابن حزم(رح) خبر واحد کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور اس پر علم و عمل دونوں کو واجب قرار دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں. جب خبر واحد کا راوی عادل ہو اور اس کی سند نبی اکرم(ص) تک متصل ہو تو ایسی روایت پر علم اور عمل دونوں واجب ہیں. یہ حارث بن اسد محاسبی(رح) اور حسیں بن علی کرابیسی(رح) سے مروی قول ہے. امام مالک سے بھی اس طرح منقول ہے. ہم بھی یہی کہتے ہیں. ایسی حدیث قطعی طور پر حق اور علم و عمل دونوں کی موجب ہے)الاحکام فی اصول الاحکام-١ -١٢٤--اصول فقہ-٢٢- شریعہ اکادمی، فیصل مسجد اسلام آباد.
نسخ : امام ابن حزم قرآن و سنت میں نسخ کے قائل ہیں.---------------امر و نہی: ظاہری فقہاء اوامر و نواہی میں درجات کے قائل نہیں . امام ابن حزم فرماتے ہیں، اول تا آخر تمام احکام شریعت کی تین اقسام ہیں. فرض،حرام اور حلال....مکروہ اور مندوب دونوں مباح میں داخل ہیں،مکروہ کا مرتکب گناہ گار نہیں ہوتا. قرآن مجید کی آیات کے حوالے سے( وھی-اللہ - تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمیں میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں.٢-٢٩--اور فرمایا- جو چیزیں اس -اللہ- نے تمہارے لیے حرام ٹھہرا دی ہیں وہ ایک ایک کر کے بیان کر دی ہیں--بے شک ان کو نہیں کھانا چاہے-- مگر اس صورت میں کہ--ان کے کھانے کے لیے--حالت اضطرار میں مبتلا ہو جاؤ) ابن حزم لکھتے ہیں کہ. ان دونوں آیات سے یہ ثابت ہوا کہ عالم ارض کی ہر چیز اور ہر عمل مباح اور حلال ہے، سواے ان اشیا کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے صراحت سے حرام قرار دیا ہو یا نبی(ص) جوکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شارح قرآن بھی ہیں کے کلام سے، یا تمام امت کے اجماع سے جن کی ممانعت ثابت ہوتی ہو . قرآنی نصوص نے اجماع امت کا اتباع ضروری قرار دیا ہے، یہ اجماع بھی کسی نص پر مبنی ہو گا. اگر ہم نص میں کسی چیز کی حرمت پاتے ہیں تو وہ حرام ہے. اگر نام لے کر کسی چیز کی حرمت پر اجماع منعقد ہو تو ہم ایسی چیز کو حرام قرار دیں گے. اگر نام لے کر کسی چیز کی حرمت پر نص ہو اور نہ اس پر اجماع ہو تو وہ چیز اوپر ذکر کردہ پہلی آیت(البقرہ-٢-٢٩) کی رو سے حلال ہے .
اجماع : امام ابن حزم صحت اجماع کےلیے یہ ضروری قرار دیتے ہیں کہ اس کی بنیاد کسی نص پر ہو. نص کے بغیر اجماع ممکن نہیں ہے،یہ نص یا تو قرآن ہو یا حدیث ہونی چاہے. امام ابن حزم اپنے موقف کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے--لوگو-! جو کتاب تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا دوسرے رفیقوں کی پیروی مت کرو-ا لاعراف-٧-٣.--پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جو اس نے نازل کیا ہے اس کی پیروی کریں. اس کے سوا کی پیروی کرنے سے ہمیں قطعی طور پر منع کیا ہے. لہذا جس کا قول موافق نص نہ ہو وہ قول باطل ہے. گویا جو اجماع نص پر نہ ہو وہ اجماع بھی باطل ہے. غیر نص باطل ہے، اجماع حق اور حق،باطل کے موافق نہیں ہوتا.(أیضا -٤-١٣٦-١٣٧، و اصول فقہ-٢٢ ،شریعہ اکادمی مذکورہ )
دلیل : فقہ ظاہری میں شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے قرآن،سنت اور اجماع کے بعد چوتھا اصول دلیل ہے. یہ قیاس نہیں ہے. دلیل قرآن و سنت کے نصوص اور اجماع سے براہ راست اخذ کی جاتی ہے. ظاہری فقہاء اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ دلیل قیاس ہے یا یہ نص اور اجماع سے علیحدہ کوئی چیز ہے. امام ابن حزم کہتے ہیں کھ جہلاء نے گمان کر رکھا ہے کہ ہم دلیل کو بطور اصل تسلیم کر کے نص اور اجماع سے باہر نکل گنے ہیں. بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ قیاس اور دلیل ایک ہی چیز ہیں. یہ سب لوگ اپنے گمان میں سخت غلطی پر ہیں. امام ابن حزم اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ لکھتےرہے ہیں.
امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہم قرآن میں پاتے ہیں کہ احکام الہی کی اطا عت ہم پر لازم ہے،پھر نبی اکرم (ص) کے اوامر بھی ہم پر لازم ہیں جو ثقہ راویوں سے ہم تک پہنچے ہیں، پھر مسلمانوں کے تمام علماء کا اجماع بھی ہم پر لازم ہے جو نبی اکرم(ص) سے ہم تک تواتر سے ثابت ہو.اللہ تعالیٰ نے یہ تین امور یعنی قرآن مجید، سنت اور اجماع علماۓ مسلمین کی اطاعت ہم پر واجب قرار دی ہے. جب ہم ان تین دلائل میں غور کرتے ہیں تو ان میں ایسی چیزیں پاتے ہیں کہ جب وہ جمع ہو جائیں تو اس سے ایک مصوص حکم وجود میں ا جاۓ گا . یہ چوتھی دلیل ہے جو پہلے تین دلائل سے باہر کوئی چیز نہیں ہے. مثلاّ نبی اکرم(ص)کی حدیث ہے-- کل مسکر خمر و کل خمر حرام --یعنی ہر نشہ اور چیز خمر ہے. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے. یہ حکم اپنے معنی میں بالکل واضح ہے. اس میں کوئی دوسرا احتمال نہیں پایا جاتا کیونکہ مسکر خمر ہے اور خمر مسکر ہے اور خمر حرام ہے. لہذا مسکر جو کہ خمر ہے وہ حرام ہے.---امام ابن حزم
کے اس موقف سے واضح ہوا کہ دلیل نص اور اجماع سے ماخوز ہوتی ہے.(أیضا)
اس پوسٹ کا پارٹ-٢ بھی دیکھیں
علامہ کی خواہش تھی کی اجتہاد کے زریعہ وقت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہونے نصوص کی تعبیر و تشریح ہوتی رہنی چاہتے اور مقاصد شریعت کو برونے کار لاتے ہونے اجتہاد کا عمل جاری رہنا چاہے .ہمارے پاس مختلف مسلک سے متعلقہ عظیم فقہی ذخیرہ موجود ہے جسے قرآن و سنت کی نصوص سے حکم اخذ کرتے وقت بطور نظیر اور روشنی کے استعمال کیا جا سکتا ہے. اس ضمن میں ہم نے ایک تعارفی نوٹ فقہ ظاہری اور اس کے مشہور امام ابن حزم کی بابت لکھا ہے،تاکہ قارئین اس سے فائدہ اٹھا سکیں.
فقہ ظاہری سے متعلق ائمہ کرام کے تذکروں میں جب تک امام ابن حزم(رح) کا نام نہ آئے تو تعارف ادھورا رہ جاتا ہے.فقہ ظاہری کے بانی امام ابو سلیمان داؤد بن علی بن خلف-رح ( پ-٢٠٠ ہجری ) اصفہانی تھے. آپ بغداد میں سکونت پزیر رہے اور وہیں ٢٧٠ ح میں وفات پائی. امام داؤد پہلے شخص تھے جنہوں نے ظواہر نصوص سے احکام اخذ کرنے کا دعوی کیا، اسے بطور مسلک اپنایا اور احکام میں قیاس اور رائے کی نفی کی.
آپ امام شافعی(رح) کے تلامذہ کے شاگرد تھے. امام داؤد شروع میں فقہ شافعی(رح) سے وابستہ رہے اور آپ شافعی اصول کے مقلد تھے.امام شافعی کے فضائل پر انہوں نے دو کتابیں بھی تصنیف کی تھیں. بعد میں آپ نے اپنے لیے الگ فقہی مسلک پسند کر لیا.
امام ابن حزم(رح) کا پورا نام علی بن احمد بن سعیدبن ہضم، کنیت ابو محمّد ہے اور ابن حزم کے نام سے شہرت پائی. آپ اندلس کے شہر قرطبہ میں پیدا ہونے اور عمر کی ٧٢ بھاریں دیکھ کر ٤٥٢ ہجری میں فوت ہویے .
امام ابن حزم تقریباّ چار صد کتب کے مولف کہلاتے ہیں.آپ کی وہ کتابیں جنہوں نے فقہ ظاہری کی اشاعت میں شہرت پائی وہ المحلی اور" الاحکام" فی اصول الاحکام ہیں. المحلی فقہ ظاہری اور دیگر فقہ میں تقابل کا ایک موسوعہ ہے . یہ کئی اجزاء پر مشتمل ایک ضخیم فقہی کتاب ہے جس میں فقہ اور اصول فقہ کے ابواب شامل ہیں.المحلی کا اردو زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے.(اور اسکی تین جلدیں کبھی کبھی بازار میں آ جاتی ہیں لیکن اکثر نہیں ملتی) موخرالذکر کتاب کا مو ضو ع اصول فقہ ہے. کہتے ہیں کہ اگر یہ دونوں کتابیں نہ ہوتیں تو اس مسلک کا جاننے والا کوئی نہ ہوتا. ظاہری مسلک کے متبعین نہ ہونے کے با وجود یہ مسلک ہم تک جس زریعہ سے پہنچا ہے، وہ زریعہ یہ دونوں کتابیں ہی ہیں.(اصول فقہ -بک نمبر -٢٢- شریعہ اکیڈمی -فصل مسجد اسلامآباد)
فقہ ظاہری میں اجتہاد کے اصول کیا ہیں ؟..امام ابن حزم سورہ المائدہ -٣/٥ اور النساء ٥٩/٤ کا حوالہ دیتے ہیں --مباحث کے بعد لکھتے ہیں کہ صرف چار اصول ہیں جن سے احکام شریعت معلوم کئے جا سکتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں --١-- نصوص قرآن --٢-- نصوص احادیث رسول(ص)---٣--- امت کے تمام علماء کا اجما ع اور--٤--دلیل .
١ .قرآن مجید. امام ابن حزم فرماتے ہیں: قرآن مجید ہم پر اللہ تعالیٰ کا وہ عہد ہے جس کا اقرار اور جس پر عمل ہم پر لازم ہے تمام مسالک اسلامیہ کی طرح مسلک ظاہری میں بھی مصدر اول اور اصل قرآن مجید ہے. کسی مسلہء کا شر عی حکم معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کیا جاۓ گا. البتہ فقہاۓ ظاہریہ قرآنی الفاظ کے ظاہر پر عمل کے قائل ہیں.
٢.احادیث نبوی (ص) بھی فقہ ظاہری میں مصدر اصلی ہیں. امام ابن حزم فرماتے ہیں: جس نے قرآن یا نبی اکرم(ص)سے صحیح حدیث کو اپنے امام یا کسی اور شخص کے قول کی وجہ سے ترک کر دیا،خواہ وہ شخص اس صحیح حدیث کا راوی ہو یا غیر راوی ہو، تو اس نے ایسی چیز ترک کی جس کے اتباع کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور وہ چیز اختیار کی جس کے اعتبا ع کا حکم اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا. یہ حکم خداوندی کی خلاف ورزی ہے. فرمان الہی ہے --اے ایماں والو ! اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور اس سے روگردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو. اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کہتے ہیں کہ ہم نے (اللہ کا حکم)سن لیا مگر وہ(حقیقت میں) نہیں سنتے.(الانفال-٨:٢٠،٢١ ...قرآن مجید میں مذکورہ احکام اور احدث صحیحہ میں مذکورہ احکام وجوب کے اعتبار سے یکساں ہیں، اگرچہ صحت اور نقل و روایت کے اعتبار سے قرآنی احکام اور احکام احادیث میں فرق پایا جاتا ہے.
امام ابن حزم افعال نبوی کو فرض قرار نہیں دیتے، سواۓ اس کے جو فعل کسی حکم کا بیان ہو، البتہ افعال نبوی کی موافقت بہتر ہے، ہم پر صرف وھی لازم ہے جس کا حکم نبی اکرم(ص) نے دیا، یا جس چیز سے منع فرمایا . اس پر آپ (ص) نے سکوت اختیار کیا اور در گزر فرمایا تو وہ ہم پر بھی ساقط ہے. امام ابن حزم کہتے ہیں. سنان کی تین اقسام ہیں، قول نبی(ص) یا آپ کا فعل یا تقریر یعنی ایسی چیز جسے آپ نے دیکھا یا جانا،اور پھر اسے برقرار رکھا اور اس کا انکار نہیں کیا. آپ کا حکم فرض اور واجب ہے، سواۓ اس کے کہ کوئی دلیل اس کے وجوب کو مندوب کرنے والی ہو. آپ(ص) کا فعل لائق پیروی ہے، اس پر عمل کرنا واجب ہے، لیکن اگر نبی(ص) نے کسی حکم کی تنفیذ یا بیان و وضاحت میں کوئی فعل کیا ہو تو پھر اس پر عمل کرنا واجب ہے. آپ(ص) کی تقریر فقط مباح ہے، واجب یا مندوب نہیں. اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت میں ہم پر یہ فرض نہیں کیا کہ ہم بھی وہی کریں جو نبی(ص) نے کیا. بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا ہے. "تمہارے لیے رسول(ص) کی پیروی(کرنا) بہتر ہے -ا الاحزاب -٣٣:٢١. لہذا ہمارے لیے افعال رسول(ص) صرف مباح ہیں.کوئی فعل واجب قرار دینے کے لیے لفظ لنا(ہمارے لیے) کے بجانےعلینا(ہم پر) ہوتا ہے. ہم پر افعال نبی(ص) فراز قرار دینے کے لیے قرآن کا حکم یوں ہوتا .
لقد كان عليكم في رسول الله أسوة حسنة (الاحكام في أصول الا حکام ٤/٤٨).
معلوم ہوا کہ امام ابن حزم کے نزدیک نبی اکرم(ص) کے افعال اور تقریرات واجب یا مندوب نہیں،صرف مباح ہیں، افعال میں بھی صرف وہ فعل واجب ہے جو کسی حکم کی تنفیذ میں کیا گیا ہو، جیسے نبی اکرم(ص) نے فرما یا---"اور نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے."
اسی طرح آپ(ص) کا ان لوگوں کے گھروں کو جلا دینے کا ارادہ فرمانا جو نماز کے لیے مسجد میں نہیں جاتے تھے.(حدیث -رواة حضرت ابو ہریرہ -صحیح بخاری کتاب الاذان--٢١٣/٢).
اسی طرح آپ(ص) کا شرابی کو کوڑے مارنا ہے. نبی اکرم(ص) کے وہ افعال جو آپ نے نے کسی چیز کی نہی و ممانعت میں ادا فرماۓ یا کسی کے حکم میں افعال کیے،وہ بھی واجب ہیں. جیسے آپ(ص) نے دوران نماز حضرت عباس (رض) کو اپنے بائیں جانب سے دائیں جانب کر لیا. یہ اگرچہ فعل ہے لیکن یہ حضرت عباس (رض) کے لیے حکم ہے وہ آپ(ص) کے دائیں جانب کھڑے ہوں اور یہ آپ(ص) کے بائیں جانب کھڑے ہونے میں نہی ہے.
امام ابن حزم کہتے ہیں کہ اگر صحابی یہ کہے السنة كذا--یعنی سنت یہ ہے--يا امرنا بكذا یعنی ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا،تو یہ نبی اکر(ص) کی طرف منسوب نہیں ہے. اس کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آپ(ص) کا حکم مبارک ہے. جو قول کسی سے روایت ہی نہ کیا گیا ہو،وہ اس کا قول نہیں قرار دیا جا سکتا.( محولہ بالا کتابچہ-اصول فقہ نمبر -٢٢ -ص-٣٩ یا ٥١ ملخص -بین الاقوامی اسلامی یو نیورسٹی - شریعہ اکیڈمی فیصل مسجد اسلام آباد.)
سنت رسول(ص) کا تشریعی مقام جاننے کے لیے "فقہ ظاہری کے علمائے کرام نے دوسرے مسالک سے ہٹ کر اپنا طریقہ کار وضع کیا تھا . جس کی وجہ سے اخذ ا حکام پر بھی فرق پڑا. یہ سب کچھ دیکھنے کے لیے فقہ ظاہری کی کتابوں کو دیکھنا ہوتا ہے. آجکل فقہ مقارنہ سے استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے اور اس ضمن میں یہ اشد ضروری ہےکہ سارے فقہی مسالک کے بارے میں ایک مجتہد کو کلی علم ہو.تاکہ زمانے کی ضرویات پوری کرنے کے لیے مقصاد شریعت کو مد نظر رکھتے ہونے دین کے نصوص میں وسعت نظری پیدا ہو سکے اور استنباط احکام میں لوگوں کے مصالح
بھی سامنے رکھتے ہونے کامیابی یقینی اور فائدہ مند ہو سکے
خبر واحد.
امام ابن حزم(رح) خبر واحد کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور اس پر علم و عمل دونوں کو واجب قرار دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں. جب خبر واحد کا راوی عادل ہو اور اس کی سند نبی اکرم(ص) تک متصل ہو تو ایسی روایت پر علم اور عمل دونوں واجب ہیں. یہ حارث بن اسد محاسبی(رح) اور حسیں بن علی کرابیسی(رح) سے مروی قول ہے. امام مالک سے بھی اس طرح منقول ہے. ہم بھی یہی کہتے ہیں. ایسی حدیث قطعی طور پر حق اور علم و عمل دونوں کی موجب ہے)الاحکام فی اصول الاحکام-١ -١٢٤--اصول فقہ-٢٢- شریعہ اکادمی، فیصل مسجد اسلام آباد.
نسخ : امام ابن حزم قرآن و سنت میں نسخ کے قائل ہیں.---------------امر و نہی: ظاہری فقہاء اوامر و نواہی میں درجات کے قائل نہیں . امام ابن حزم فرماتے ہیں، اول تا آخر تمام احکام شریعت کی تین اقسام ہیں. فرض،حرام اور حلال....مکروہ اور مندوب دونوں مباح میں داخل ہیں،مکروہ کا مرتکب گناہ گار نہیں ہوتا. قرآن مجید کی آیات کے حوالے سے( وھی-اللہ - تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمیں میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں.٢-٢٩--اور فرمایا- جو چیزیں اس -اللہ- نے تمہارے لیے حرام ٹھہرا دی ہیں وہ ایک ایک کر کے بیان کر دی ہیں--بے شک ان کو نہیں کھانا چاہے-- مگر اس صورت میں کہ--ان کے کھانے کے لیے--حالت اضطرار میں مبتلا ہو جاؤ) ابن حزم لکھتے ہیں کہ. ان دونوں آیات سے یہ ثابت ہوا کہ عالم ارض کی ہر چیز اور ہر عمل مباح اور حلال ہے، سواے ان اشیا کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے صراحت سے حرام قرار دیا ہو یا نبی(ص) جوکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شارح قرآن بھی ہیں کے کلام سے، یا تمام امت کے اجماع سے جن کی ممانعت ثابت ہوتی ہو . قرآنی نصوص نے اجماع امت کا اتباع ضروری قرار دیا ہے، یہ اجماع بھی کسی نص پر مبنی ہو گا. اگر ہم نص میں کسی چیز کی حرمت پاتے ہیں تو وہ حرام ہے. اگر نام لے کر کسی چیز کی حرمت پر اجماع منعقد ہو تو ہم ایسی چیز کو حرام قرار دیں گے. اگر نام لے کر کسی چیز کی حرمت پر نص ہو اور نہ اس پر اجماع ہو تو وہ چیز اوپر ذکر کردہ پہلی آیت(البقرہ-٢-٢٩) کی رو سے حلال ہے .
اجماع : امام ابن حزم صحت اجماع کےلیے یہ ضروری قرار دیتے ہیں کہ اس کی بنیاد کسی نص پر ہو. نص کے بغیر اجماع ممکن نہیں ہے،یہ نص یا تو قرآن ہو یا حدیث ہونی چاہے. امام ابن حزم اپنے موقف کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے--لوگو-! جو کتاب تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا دوسرے رفیقوں کی پیروی مت کرو-ا لاعراف-٧-٣.--پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جو اس نے نازل کیا ہے اس کی پیروی کریں. اس کے سوا کی پیروی کرنے سے ہمیں قطعی طور پر منع کیا ہے. لہذا جس کا قول موافق نص نہ ہو وہ قول باطل ہے. گویا جو اجماع نص پر نہ ہو وہ اجماع بھی باطل ہے. غیر نص باطل ہے، اجماع حق اور حق،باطل کے موافق نہیں ہوتا.(أیضا -٤-١٣٦-١٣٧، و اصول فقہ-٢٢ ،شریعہ اکادمی مذکورہ )
دلیل : فقہ ظاہری میں شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے قرآن،سنت اور اجماع کے بعد چوتھا اصول دلیل ہے. یہ قیاس نہیں ہے. دلیل قرآن و سنت کے نصوص اور اجماع سے براہ راست اخذ کی جاتی ہے. ظاہری فقہاء اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ دلیل قیاس ہے یا یہ نص اور اجماع سے علیحدہ کوئی چیز ہے. امام ابن حزم کہتے ہیں کھ جہلاء نے گمان کر رکھا ہے کہ ہم دلیل کو بطور اصل تسلیم کر کے نص اور اجماع سے باہر نکل گنے ہیں. بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ قیاس اور دلیل ایک ہی چیز ہیں. یہ سب لوگ اپنے گمان میں سخت غلطی پر ہیں. امام ابن حزم اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ لکھتےرہے ہیں.
امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہم قرآن میں پاتے ہیں کہ احکام الہی کی اطا عت ہم پر لازم ہے،پھر نبی اکرم (ص) کے اوامر بھی ہم پر لازم ہیں جو ثقہ راویوں سے ہم تک پہنچے ہیں، پھر مسلمانوں کے تمام علماء کا اجماع بھی ہم پر لازم ہے جو نبی اکرم(ص) سے ہم تک تواتر سے ثابت ہو.اللہ تعالیٰ نے یہ تین امور یعنی قرآن مجید، سنت اور اجماع علماۓ مسلمین کی اطاعت ہم پر واجب قرار دی ہے. جب ہم ان تین دلائل میں غور کرتے ہیں تو ان میں ایسی چیزیں پاتے ہیں کہ جب وہ جمع ہو جائیں تو اس سے ایک مصوص حکم وجود میں ا جاۓ گا . یہ چوتھی دلیل ہے جو پہلے تین دلائل سے باہر کوئی چیز نہیں ہے. مثلاّ نبی اکرم(ص)کی حدیث ہے-- کل مسکر خمر و کل خمر حرام --یعنی ہر نشہ اور چیز خمر ہے. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے. یہ حکم اپنے معنی میں بالکل واضح ہے. اس میں کوئی دوسرا احتمال نہیں پایا جاتا کیونکہ مسکر خمر ہے اور خمر مسکر ہے اور خمر حرام ہے. لہذا مسکر جو کہ خمر ہے وہ حرام ہے.---امام ابن حزم
کے اس موقف سے واضح ہوا کہ دلیل نص اور اجماع سے ماخوز ہوتی ہے.(أیضا)
اس پوسٹ کا پارٹ-٢ بھی دیکھیں
0 comments:
Post a Comment