اہل ظاہریہ کا مذہب یہ ہے کہ قیاس پر عمل عقلآ جائز ہےشرعآ جائز نہیں ہے، کیونکہ شرع میں قیاس سے منع کیا گیا ہے. ابن حزم نے المحلی میں اس مسلے پر بہت طویل گفتگو کی ہے اور دلائل دیے ہیں،فرماتے ہیں" دین میں قیاس اور راۓ سے بات کہنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اگر کہیں اختلاف ہو تو اسے اللہ کی کتاب اور سنت رسول اکرم(ص) سے حل کرو، اگر کوئی شخص اسے قیاس، راۓ یا علت کی طرف پھیر دیتا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی. کیونکہ اس حکم کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کا تقاضا قرار دیا ہے اور اس حکم کو چھوڑ کر دوسری چیز اختیار کرنا ایمان کے منافی ہے"
حضرت علی (رض)فرماتے ہیں ،اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین-- ہم نے کتاب یعنی(لوح محفوظ) میں کسی چیز کی لکھنے میں کوتاہی نہیں کی--الانعام-٦-٣٨.--ہر چیز کا مفصل بیان ہے -النحل-١٦- ٨٩، تاکہ جو(ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے وہ ان پر ظاہر کرو-النحل-١٦ - ٤٤ -قیاس اور راۓ کے باطل ہونے پر حجت ہیں. ارشاد باری تعالیٰ ہے- اور آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر -المائدہ-٥-٣.
قیاس اور راۓ کو حجت تسلیم کرنے والے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جب نص موجود ہو تو قیاس اور راۓ کی ضرورت نہیں ہو گی، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی صراحت کر دی ہے کہ نص میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی ہے. اور نبی کریم(ص) نے نازل شدہ احکام کی تفصیلات بتا دی ہیں، دین کامل ہو چکا ہے. پس ثابت ہوا کہ نصوص میں تمام دین آ چکا ہے... ہم قیاس سے استدلال کرنے والوں سے پوچھتے ہیں. آیا ہر قیاس حق ہے، یا بعض حق ہیں اور بعض باطل ؟ اگر یہ کہا جاۓ کہ ہر قیاس حق اور صحیح ہے تو نا ممکن بات ہے، کیونکہ قیاس ایک دوسرے سے متعارض ہوتے ہیں اور ایک قیاس دوسرے کو باطل ٹھہراتا ہے. اور یہ نا ممکن ہے کہ ایک ہی چیز بیک وقت حلال اور حرام ہو،ناحق ہو. جبکہ قیاس میں احادیث کی طرح نسخ یا تخصیص کا بھی امکان نہیں ہوتا. احادیث میں نسخ منسوخ بھی ہیں اور اس کے عموم میں تخصیص بھی پیدا ہو سکتی ہے. اور اگر اس سوال کا جواب یہ دیا جاۓ کہ قیاس کی بعض صورتیں حق ہیں اور بعض باطل ،تو پھر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیاس صحیح اور قیاس فاسد کو پہچاننے اور انہیں الگ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ در حقیت قیاس صحیح کو فاسد سے الگ کرنے کا کوئی طریقہ ہے ہی نہیں. جب ایسی کوئی دلیل مل ہی نہیں سکتی جس سے قیاس صحیح کو فاسد سے ممتاز کیا جا سکے تو پھر ہر قسم کا قیاس باطل ہوا، اور قیاس کا دعوی بلا دلیل ہے.
اگرقیاس کے قائلین دعوی کریں کہ قیاس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے تو ان سے اس کی دلیل مانگی جائیگی ،اگر اس آیت- الحشر -٥٩-٣ )تو اے عقل رکھنے والو! عبرت حاصل کرو) کوبطور دلیل پیش کریں تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے کلام(جس میں قرآن نازل ہوا) میں اعتبار کا معنی صرف تعجب ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے-المومنون ٢٣-١٦ (اور تمہارے لیے چوپایوں میں عبرت ہے) مزید فرمایا( ان کے قصے میں عقل مندوں کےلیے عبرت ہے -یوسف-١٦-١١١) اعتبار کا معنی" قیاس" لینا قابل تعجب بے ،یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قیاس کا حکم دے لیکن یہ نہ بتائےکہ ہم کس چیز کو قیاس کریں، ہم کیسے قیاس کریں اور کس چیز پر قیاس کریں! قیاس کا تو کوئی ذریعہ نہیں ہے، کیونکہ اللہ اور نبی(ص) کی تعلیم کے بغیر دین کی کسی بات کو جاننا ہمارے بس سے باہر ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے( خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا--البقرہ -٢-٢٨٢)..........
ابن حزم اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ، ہمارا یہ دعوی ہے کہ صحابہ کرام (رض)کا قیاس کے باطل ہونے پر اجماع ہے. اور اس دعوی کے درست ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس بات پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ تمام صحابہ کرام قرآن مجید کی تصدیق کرنے والے تھے، جبکہ قرآن مجید میں یہ حکم ہے---اور آج ہم نے تم پر تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا-المائدہ ٥-٣ ،اور حکم ہے، اگر کسی بات پر تم میں اختلاف واقع ہو،اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو-النسا -٤-٥٩ --یہ ناممکن ہے کہ صحابہ کرام ان آیات کا علم رکھنے اور ایمان رکھنے کے باوجود کسی اختلافی مسلے کو قیاس راۓ سے حل کرتے ہوں،کوئی صاحب عقل ان کے متعلق اس بات کا گمان بھی نہیں کر سکتا.
قیاس سے استدلال کے جواز میں اختلاف کا نتیجہ.
قیاس سے استدلال کے جواز اور عدم جواز میں اختلاف کی وجہ سے بہت سے فقہی مسائل میں اختلاف پیدا ہوا ہے.مثال کے طور پر.
جن اشیا کا حدیث میں ذکر نہیں ہے ان میں سود.
حضرت عبادہ بن صامت(رض) فرماتے ہیں. میں نے رسول اکرم(ص) کو فرماتے سنا" آپ سونے کو سونے کے بدلے میں، چاندی کو چاندی کے بدلے میں، کھجور کو کھجور کے بدلے میں گندم کو گندم کے بدلے میں، جو کو جو بدلے میں، نمک کو نمک کے بدلے میں فروخت کرنے سے منع فرماتے تھے.الا یہ کہ یہ اشیا باہم برابر اور نقد و نقد ہوں، جو زیادہ دے گا یا لے گا تو وہ سود ہو گا.
تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جن چھ اشیا کا حدیث میں ذکر ہے ان میں کمی بیشی سود ہے. لیکن ان اشیا کے علاوہ دوسری اشیا میں بھی آیا سود ہے؟ اس میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے.
جمہور علماء کی راۓ یہ ہے کہ ہر وہ جنس یا چیز جو ان چھ اشیا سے علت میں مشابہ ہو اس میں بھی سود ہو گا. البتہ علت کے تعین میں جمہور کے درمیان اختلاف ہے.
اہل ظواہر کے نزدیک ان چھ اشیا کے علاوہ کسی اور چیز میں سود نہیں ہوتا اور نہ ہی اس پر سود کا حکم لگایا جاۓ گا،کیونکہ ان کے نزدیک قیاس کرنا صحیح نہیں ہے، اس لیے اہل ظواہر کے نزدیک چاول، چنا،مسور اور مکئی اور دیگر اجناس میں تبادلے کے وقت کمی بیشی کی صورت میں سود نہیں ہو گا.(قواعد اصولیه میں فقہاء کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثر. شریعہ اکادمی،فصل مسجد اسلام آباد -ص-٤١٩-٤٢٠)
اسکے علاوہ اگر مزید مثالیں دیکھنی ہوں تو محولہ بالا کتاب یا ابن حزم کی کتابیں دیکھیں.
قیاس کے منکرین کا جمہور سے حکم میں اتفاق اور ماخذ میں اختلاف.
محقق کی نگاہ سے یہ بات اوجھل نہیں رہنا چاہے کہ قیاس سے استدلال نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیاس کے قا ئلیں جس مسلے میں بھی قیاس کے نتیجے میں کس حکم تک پہںچیں گے لازماّ قیاس کے منکرین اس کے برعکس حکم لگائیں گے. کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض مسائل میں دونوں فریق حکم پر متفق ہوتے ہیں،لیکن حکم کا ماخذ یا ذریعہ مختلف ہوتا ہے. قیاس کے قائلین قیاس کے زریعہ سے ایک حکم لگاتے ہیں اور منکرین قیاس بھی بعینہ وہی حکم لگاتے ہیں -ابن حزم فرماتے ہیں." قیاس کے قائلین اس آیت سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے --النور ٢٤-٤- وہ لوگ جو پرہیزگار عورتوں پربد کاری کی تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں،انہیں اسی درے(٨٠-کوڑے ) لگاؤ اوران کی گواہی کبھی قبول نہ کرو--قیاس کے قائلین کہتے ہیں-نص میں صرف پاک دامن عورتوں پر تہمت لگا نے والوں کو کوڑے لگانے کا حکم ہے حالانکہ تمہارے نزدیک پاک دامن مردوں پر تہمت کی سزا اور حد بھی وہی ہے جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کی سزاہے، یہی قیاس ہے"
امام ابومحمد(رح) کہتے ہیں "یہ خیال غلط ہے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ یہ قیاس ہو ،ہم انشااللہ بتائیں گے کہ ہم نے پاک دامن مردوں پر تہمت کی حد کا حکم قرآن و سنت کی کونسی نص سے لیا ہے . جب اس بات کی صراحت ہو جاۓ گی کہ حکم بھی ہمارے نزدیک نص سے ماخذ ہے تو اس سے اس بات کی وضاحت بھی ہو جاے گی کہ اسے " قیاس" کہنا بھی جائز نہیں ہے. اگر قیاس کے قائلین یہاں قیاس کرتےتو پھران کا حکم اس حکم سے مختلف ہوتا. یہ سب اللہ کی توفیق اور تائید ہے. اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد "الذین یرموں المحصنات" میں عموم ہے، اس میں صرف نص یا اجما ع سے تخصیص ہو سکتی ہے،کیونکہ اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ شرم گاہوں کی عصمت مراد ہو،کیونکہ جس لغت میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس میں یہ معنی کوئی غیر مانوس نہیں ہیں اور اس لغت میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے خطاب کیا ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے . وانزلنا من المعصر ات ...الخ -النبا ٧٨-١٤-( اور ہم نے نچڑتے بادلوں سے موسلا دھار مینہ برسایا) معصرات سے سحاب مراد لیا گیا ہے.(اسی طرح) ہم کہتے ہیں کہ آیت میں شرم گاہوں کی عصمت مراد ہے، تم کہتے ہو کہ پاکدامن عورتیں مراد ہیں. ( چنانچہ عورت اور مرد کو شرمگاہ کی عصمت کے اعتبارسے برابر جانناچا ہیے). "لفظ فروج -یعنی شرم گاہیں- "نساء" سے عام ہے -یہاں نساء سے تحدید کرنے سے لفظ کے عموم میں تخصیص پیدا ہو جاتی ہے، جبکہ لفظ کے عموم میں نص اور اجما ع کے بغیر تخصیص جائز نہیں -کیونکہ مرد یا عورت کی تخصیص کے بغیر مقصود شرم گاہوں پر تہمت کا ذکر ہے. اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کے یہ ارشاد ہیں.جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ(ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں- المومنون ٢٣-٦٥.-مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچے رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں-النور-٢٤-٣٠، اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچے رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں -النور-٢٤-٣١. اور پھر ارشاد ہے- اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں- الاحزاب-٣٣-٣٥.-، اور(دوسری) عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھا.التحریم-٦٦-١٢، مزید یہ کہ، ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی تصریحات کے مطابق محصن سے مراد شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والا ہے.(الاحکام فی اصول الاحکام،ابن حزم ٩٥٦-٩٥٧.
ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسلے میں قیاس کے قائلین اور منکرین کا اس حکم میں اتفاق ہے کہ پاک دامن مردوں پر تہمت لگانے کی بھی وہی حد ہے جو پاکدامن عورتوں پر تہمت کی ہے،گو کہ دونوں کا طریق کارمختلف ہے.(قواعد اصولیہ میں فقہاء کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثرص-٤١٩ سے آگے ملخص - تالیف ڈاکٹر مصطفیٰ سعید الخن-مترجم حافظ حبیب الرحمن -شریعہ اکادمی، فیصل مسجد اسلام آباد، پاکستان)
حضرت علی (رض)فرماتے ہیں ،اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین-- ہم نے کتاب یعنی(لوح محفوظ) میں کسی چیز کی لکھنے میں کوتاہی نہیں کی--الانعام-٦-٣٨.--ہر چیز کا مفصل بیان ہے -النحل-١٦- ٨٩، تاکہ جو(ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے وہ ان پر ظاہر کرو-النحل-١٦ - ٤٤ -قیاس اور راۓ کے باطل ہونے پر حجت ہیں. ارشاد باری تعالیٰ ہے- اور آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر -المائدہ-٥-٣.
قیاس اور راۓ کو حجت تسلیم کرنے والے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جب نص موجود ہو تو قیاس اور راۓ کی ضرورت نہیں ہو گی، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی صراحت کر دی ہے کہ نص میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی ہے. اور نبی کریم(ص) نے نازل شدہ احکام کی تفصیلات بتا دی ہیں، دین کامل ہو چکا ہے. پس ثابت ہوا کہ نصوص میں تمام دین آ چکا ہے... ہم قیاس سے استدلال کرنے والوں سے پوچھتے ہیں. آیا ہر قیاس حق ہے، یا بعض حق ہیں اور بعض باطل ؟ اگر یہ کہا جاۓ کہ ہر قیاس حق اور صحیح ہے تو نا ممکن بات ہے، کیونکہ قیاس ایک دوسرے سے متعارض ہوتے ہیں اور ایک قیاس دوسرے کو باطل ٹھہراتا ہے. اور یہ نا ممکن ہے کہ ایک ہی چیز بیک وقت حلال اور حرام ہو،ناحق ہو. جبکہ قیاس میں احادیث کی طرح نسخ یا تخصیص کا بھی امکان نہیں ہوتا. احادیث میں نسخ منسوخ بھی ہیں اور اس کے عموم میں تخصیص بھی پیدا ہو سکتی ہے. اور اگر اس سوال کا جواب یہ دیا جاۓ کہ قیاس کی بعض صورتیں حق ہیں اور بعض باطل ،تو پھر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیاس صحیح اور قیاس فاسد کو پہچاننے اور انہیں الگ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ در حقیت قیاس صحیح کو فاسد سے الگ کرنے کا کوئی طریقہ ہے ہی نہیں. جب ایسی کوئی دلیل مل ہی نہیں سکتی جس سے قیاس صحیح کو فاسد سے ممتاز کیا جا سکے تو پھر ہر قسم کا قیاس باطل ہوا، اور قیاس کا دعوی بلا دلیل ہے.
اگرقیاس کے قائلین دعوی کریں کہ قیاس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے تو ان سے اس کی دلیل مانگی جائیگی ،اگر اس آیت- الحشر -٥٩-٣ )تو اے عقل رکھنے والو! عبرت حاصل کرو) کوبطور دلیل پیش کریں تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے کلام(جس میں قرآن نازل ہوا) میں اعتبار کا معنی صرف تعجب ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے-المومنون ٢٣-١٦ (اور تمہارے لیے چوپایوں میں عبرت ہے) مزید فرمایا( ان کے قصے میں عقل مندوں کےلیے عبرت ہے -یوسف-١٦-١١١) اعتبار کا معنی" قیاس" لینا قابل تعجب بے ،یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قیاس کا حکم دے لیکن یہ نہ بتائےکہ ہم کس چیز کو قیاس کریں، ہم کیسے قیاس کریں اور کس چیز پر قیاس کریں! قیاس کا تو کوئی ذریعہ نہیں ہے، کیونکہ اللہ اور نبی(ص) کی تعلیم کے بغیر دین کی کسی بات کو جاننا ہمارے بس سے باہر ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے( خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا--البقرہ -٢-٢٨٢)..........
ابن حزم اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ، ہمارا یہ دعوی ہے کہ صحابہ کرام (رض)کا قیاس کے باطل ہونے پر اجماع ہے. اور اس دعوی کے درست ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس بات پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ تمام صحابہ کرام قرآن مجید کی تصدیق کرنے والے تھے، جبکہ قرآن مجید میں یہ حکم ہے---اور آج ہم نے تم پر تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا-المائدہ ٥-٣ ،اور حکم ہے، اگر کسی بات پر تم میں اختلاف واقع ہو،اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو-النسا -٤-٥٩ --یہ ناممکن ہے کہ صحابہ کرام ان آیات کا علم رکھنے اور ایمان رکھنے کے باوجود کسی اختلافی مسلے کو قیاس راۓ سے حل کرتے ہوں،کوئی صاحب عقل ان کے متعلق اس بات کا گمان بھی نہیں کر سکتا.
قیاس سے استدلال کے جواز میں اختلاف کا نتیجہ.
قیاس سے استدلال کے جواز اور عدم جواز میں اختلاف کی وجہ سے بہت سے فقہی مسائل میں اختلاف پیدا ہوا ہے.مثال کے طور پر.
جن اشیا کا حدیث میں ذکر نہیں ہے ان میں سود.
حضرت عبادہ بن صامت(رض) فرماتے ہیں. میں نے رسول اکرم(ص) کو فرماتے سنا" آپ سونے کو سونے کے بدلے میں، چاندی کو چاندی کے بدلے میں، کھجور کو کھجور کے بدلے میں گندم کو گندم کے بدلے میں، جو کو جو بدلے میں، نمک کو نمک کے بدلے میں فروخت کرنے سے منع فرماتے تھے.الا یہ کہ یہ اشیا باہم برابر اور نقد و نقد ہوں، جو زیادہ دے گا یا لے گا تو وہ سود ہو گا.
تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جن چھ اشیا کا حدیث میں ذکر ہے ان میں کمی بیشی سود ہے. لیکن ان اشیا کے علاوہ دوسری اشیا میں بھی آیا سود ہے؟ اس میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے.
جمہور علماء کی راۓ یہ ہے کہ ہر وہ جنس یا چیز جو ان چھ اشیا سے علت میں مشابہ ہو اس میں بھی سود ہو گا. البتہ علت کے تعین میں جمہور کے درمیان اختلاف ہے.
اہل ظواہر کے نزدیک ان چھ اشیا کے علاوہ کسی اور چیز میں سود نہیں ہوتا اور نہ ہی اس پر سود کا حکم لگایا جاۓ گا،کیونکہ ان کے نزدیک قیاس کرنا صحیح نہیں ہے، اس لیے اہل ظواہر کے نزدیک چاول، چنا،مسور اور مکئی اور دیگر اجناس میں تبادلے کے وقت کمی بیشی کی صورت میں سود نہیں ہو گا.(قواعد اصولیه میں فقہاء کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثر. شریعہ اکادمی،فصل مسجد اسلام آباد -ص-٤١٩-٤٢٠)
اسکے علاوہ اگر مزید مثالیں دیکھنی ہوں تو محولہ بالا کتاب یا ابن حزم کی کتابیں دیکھیں.
قیاس کے منکرین کا جمہور سے حکم میں اتفاق اور ماخذ میں اختلاف.
محقق کی نگاہ سے یہ بات اوجھل نہیں رہنا چاہے کہ قیاس سے استدلال نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیاس کے قا ئلیں جس مسلے میں بھی قیاس کے نتیجے میں کس حکم تک پہںچیں گے لازماّ قیاس کے منکرین اس کے برعکس حکم لگائیں گے. کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض مسائل میں دونوں فریق حکم پر متفق ہوتے ہیں،لیکن حکم کا ماخذ یا ذریعہ مختلف ہوتا ہے. قیاس کے قائلین قیاس کے زریعہ سے ایک حکم لگاتے ہیں اور منکرین قیاس بھی بعینہ وہی حکم لگاتے ہیں -ابن حزم فرماتے ہیں." قیاس کے قائلین اس آیت سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے --النور ٢٤-٤- وہ لوگ جو پرہیزگار عورتوں پربد کاری کی تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں،انہیں اسی درے(٨٠-کوڑے ) لگاؤ اوران کی گواہی کبھی قبول نہ کرو--قیاس کے قائلین کہتے ہیں-نص میں صرف پاک دامن عورتوں پر تہمت لگا نے والوں کو کوڑے لگانے کا حکم ہے حالانکہ تمہارے نزدیک پاک دامن مردوں پر تہمت کی سزا اور حد بھی وہی ہے جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کی سزاہے، یہی قیاس ہے"
امام ابومحمد(رح) کہتے ہیں "یہ خیال غلط ہے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ یہ قیاس ہو ،ہم انشااللہ بتائیں گے کہ ہم نے پاک دامن مردوں پر تہمت کی حد کا حکم قرآن و سنت کی کونسی نص سے لیا ہے . جب اس بات کی صراحت ہو جاۓ گی کہ حکم بھی ہمارے نزدیک نص سے ماخذ ہے تو اس سے اس بات کی وضاحت بھی ہو جاے گی کہ اسے " قیاس" کہنا بھی جائز نہیں ہے. اگر قیاس کے قائلین یہاں قیاس کرتےتو پھران کا حکم اس حکم سے مختلف ہوتا. یہ سب اللہ کی توفیق اور تائید ہے. اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد "الذین یرموں المحصنات" میں عموم ہے، اس میں صرف نص یا اجما ع سے تخصیص ہو سکتی ہے،کیونکہ اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ شرم گاہوں کی عصمت مراد ہو،کیونکہ جس لغت میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس میں یہ معنی کوئی غیر مانوس نہیں ہیں اور اس لغت میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے خطاب کیا ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے . وانزلنا من المعصر ات ...الخ -النبا ٧٨-١٤-( اور ہم نے نچڑتے بادلوں سے موسلا دھار مینہ برسایا) معصرات سے سحاب مراد لیا گیا ہے.(اسی طرح) ہم کہتے ہیں کہ آیت میں شرم گاہوں کی عصمت مراد ہے، تم کہتے ہو کہ پاکدامن عورتیں مراد ہیں. ( چنانچہ عورت اور مرد کو شرمگاہ کی عصمت کے اعتبارسے برابر جانناچا ہیے). "لفظ فروج -یعنی شرم گاہیں- "نساء" سے عام ہے -یہاں نساء سے تحدید کرنے سے لفظ کے عموم میں تخصیص پیدا ہو جاتی ہے، جبکہ لفظ کے عموم میں نص اور اجما ع کے بغیر تخصیص جائز نہیں -کیونکہ مرد یا عورت کی تخصیص کے بغیر مقصود شرم گاہوں پر تہمت کا ذکر ہے. اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کے یہ ارشاد ہیں.جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ(ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں- المومنون ٢٣-٦٥.-مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچے رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں-النور-٢٤-٣٠، اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچے رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں -النور-٢٤-٣١. اور پھر ارشاد ہے- اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں- الاحزاب-٣٣-٣٥.-، اور(دوسری) عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھا.التحریم-٦٦-١٢، مزید یہ کہ، ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی تصریحات کے مطابق محصن سے مراد شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والا ہے.(الاحکام فی اصول الاحکام،ابن حزم ٩٥٦-٩٥٧.
ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسلے میں قیاس کے قائلین اور منکرین کا اس حکم میں اتفاق ہے کہ پاک دامن مردوں پر تہمت لگانے کی بھی وہی حد ہے جو پاکدامن عورتوں پر تہمت کی ہے،گو کہ دونوں کا طریق کارمختلف ہے.(قواعد اصولیہ میں فقہاء کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثرص-٤١٩ سے آگے ملخص - تالیف ڈاکٹر مصطفیٰ سعید الخن-مترجم حافظ حبیب الرحمن -شریعہ اکادمی، فیصل مسجد اسلام آباد، پاکستان)
0 comments:
Post a Comment