صوبائی حکومتوں کے اکیس ارب روپے سے زیادہ کا خرد برد اور متعلقہ حکام کی بے حسی ، بورڈ اف ریونیو پنجاب لاہور کی مجرمانہ غفلت۔ ابھی تک کوئی موثر کاروائی نہیں ہوئی۔سابقہ ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ بنک آف پاکستان ADBPحال زرعی ترقیاتی بنک آف پاکستانZTBLکے ذریعے صوبائی حکومتوں کے اربوں کی خرد برد ہوئی ہے ، واقعہ یہ ہے کہ باقیداروں سے
زرعی بنک کی انتظامیہ اپنے بقایاجات وصول کرتے وقت وصولی کی رقم اور قسط کے ساتھ ہی دو فی صد2%ریونیو کمیشن بھی وصول کرتی رہی جو کہ متعلقہ صوبائی حکومت کے کنسالیڈیٹڈفنڈ کے اکاؤنٹ میں بذریعہ سٹیٹ نیشنل بنک یا خزانہ محکمہ مال (ٹریثری) جمع کروانا ہوتا تھا، مگر بنک انتظامیہ رقوم کو صوبائی حکومتوں کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے بجائے یا تو اپنے مصرف میں لاتی رہیں اور اس کا بہت بڑا حصہ محکمہ مال کے افسران وغیرہ کو اعزازیہ کے طور پر دیتی رہی جو کہ اس ضمن میں پبلک فنڈز کا بہت بڑا خرد برد ہییا پھر کچھ رقم صوبائی حکومتوں کے کھاتوں میں بھی بطور کاروائی جمع کرواتی رہی ، اس طرح پبلک فنڈز کے اربوں روپے متعلقہ صوبائی حکومتوں کے بیان کردہ کھاتوں میں نہ جاسکے، جس کی وجہ سے فنڈز کی موثر وصولی ، مناسب استعمال اور ثمرات سے عوام محروم رہی، جو کہ ایک بہت بڑا ظلم ہے حاص طور پر اس حالت میں جب پہلے ٹیکسوں کی وصولی میں واضح خرد برد ہوتا ہے اور نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔
یہ کیس پچھلے کئی سالوں سے بورڈ آف ریونیو لاہور اور چیف منسٹر پنجاب کے دفاتر میں زیر التو ہے اور کوئی وصولی عمل میں نہ لائی گئی ہے، صرف بے ثمر خط و کتابت پر وقت ضائع کیا جا رہا ہے، جب کہ دوسرے صوبوں کے چیف منسٹر کے دفاتر نے کوئی کاروائی سرے سے شروع ہی نہیں کی، حالانکہ انہیں موثر اطلاعات سے بھی دی گئیں تھیں۔
مورخہ 26اگست 2006کو ایک درخواست اس ضمن میں جناب صفدر جاوید سید سابقہ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب لاہور کو دی گئی، مگر اس پر کوئی کاروائی نہ ہوئی۔ پھر جنوری 2008کو ایک درخواست سیکرٹری بورڈ آف ریونیو پنجاب لاہور کو بطور یاد دہانی دی گئی ، اور روزنامہ ’’وقت‘‘ لاہور میں ایک مراسلہ بھی مورخہ 14جنوری 2008کو شائع ہوا جو کہ میرے خط پر تھا اور اسی موضوع پرتھا۔ ایک درخواست وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی دی گئی، بحوالہ چٹھی نمبرNo.DS-D-CMS/08/OT-47//278/161 ۔
مورخہ 30اپریل 2008وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور کے دفتر سے بورڈ آف ریونیو پنجاب لاہور کو لکھا گیا کہ اس ضمن میں ضروری کاروائی کر کے متعلقہ وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور کے دفتر کو بتایا جائے۔اس خط کی ایک کاپی مجھے بھی ارسال کی گئی۔ پنجاب کے تمام ضلعی ریونیو افسران کو ریونیو بورڈ مذکورہ نے خط لکھ دیے کی اصل واجب الوصول رقم کے گوشوارے تیار کرکے دفتر ہذا کو جلد از جلد بھیج دیے جائیں تاکہ وصولی عمل میں لائی جا ئے۔ مگر چونکہ ان رقوم سے بہت زیادہ فائدہ ریونیو بورڈ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہوتا رہا اور وہ رہا تھاتو ان لوگوں یعنی نائب تحصیل دار، تحصیلدار ، ا ے سی، ڈی سی کمشنر، سی ڈی اوز، ڈسٹرکٹ ریونیو افسران وغیرہ نے اس کام کے اگے روڑے اٹکانے شروع کر دئے جس کی وجہ سے یہ کام نا مکمل اور زیر التوا ہے۔ یاد رہے کہ بورڈ اف ریونیو کے صرف سابقہ 10سال کے گوشوارے طلب کئے حالانکہ درخواست میں پچھلے کئی سالوں کا حقیقی طور پر مبنی ذکر ہے۔
ڈسٹرکٹ افیسرریونیو وہاری نے اپنے گوشوارے مورخہ 05نومبر 2008میں بتایا کہ 3,41,18,280روپے، اور ڈسٹرکٹ افیسر ریونیو ساہیوال نے بحوالہ گوشوارہ مورخہ 19نومبر2008میں بتایا کہ 78,99,793روپے ابھی تک زرعی بنک سے واجب الوصول ہیں۔ اگرچہ یہ رقوم اصل واجب الوصول رقوم سے کم بتائی گئی ہیں لیکن پھر بھی یہ رقوم ابھی تک متعلقہ محکمہ یا خرد برد کرنے والوں سے وصول نہیں کی گئی، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریونیو بورڈ مذکورہ کس مجرمانہ فعل کا شکار ہے ۔ ڈسٹرکٹ آفیسر گوجرانوالہ نے بتایا کہ کوئی رقم نہ تو واجب الوصول اور نہ ہی اور نہ ہی کوئی خرد برد ہوئی ہے، حالانکہ بورڈ آف ریونیو کو ہم سے فراہم کر دہ سٹیٹمنت کے چند حوالوں سے بتایا گیا کہ ڈسٹرکٹ آفیسرریونیو گوجرانوالہ کی چٹھی غلط بیانی اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ افیسر ریونیو ننکانہ صاحب اور اٹک نے بھی غلط بیانی سے کام لے کر ریونیو لاہور کو دھوکہ دیا مگر ابھی تک کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ۔ دوسرے اضلاع سے بھی کوئی خاطر خواہ جواب نہ آیا۔
زرعی ترقیاتی بنک کی ایک شاخ پیڈی بھٹیاں زونل آفس سرگودھا میں مورخہ 28جون 2000کو 19,00,000 محمد رفیق اکاؤنٹس آفیسر اور مورخہ 30جون2001کو 12,50,000روپو ں کا رشید احمد چٹھہ منیجر نے خرد بر د کیا، اور اسی طرح مورخہ 28جون2002کو 10,00,000،مورخہ30جون2003کو 5,00,000مورخہ28دسمبر2003کو 4,00,000مورخہ30اپریل2004کو 4,79,028روپوں کا خرد برد ہوا مگر زونل چیف سرگودھا نے لکھا کہ کوئی رقم خرد برد نہیں ہوئی ۔ اسی طرح زونل چیف زرعی بنک سرگودھا اور گوجرنوالہ نے غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے کام لیا۔ حالانکہ اس دونوں زونوں میں پچیس کروڑ روپوں سے زیادہ ابھی تک واجب الوصول ہیں۔ اس امر کا ذکر سٹیٹ بنک کراچی کی چٹھی نمبرACD/Cand SD-3332-Impl.01-ZTBL-128/2007/1676 مورخہ 11دسمبر2007اور مورخہ22اپریل2008میں ہے۔ اس کیس پر پرویز مشرف دور میں کوئی کاروائی نہ ہوئی اور سٹیٹ بنک نے اس کیس کو دبا لیا۔ اور بعد کے دور میں بھی جسے جمہوری کہا جاتا ہے کوئی کام نہیں ہوا۔
پنجاب بورڈ اف ریونیو کے منسٹر حاجی محمد اسحق کے دور میں اس کیس کا بالکل ٹھپ کر دیا گیا اور کوئی کاروائی نہیں ہوئی ۔ تو اس پر ایک درخواست وزیر اعلیٰ پنجاب کو پھر مورخہ 30نومبر2011کو پیش کی ، جس پر بورڈ ریونیو لاہور کو وزیر اعلیٰ کی جانب سے لکھا گیا، جس کا نمبر ہےNo.DS-ST-/CMS/11/OT-47-1150-PT-22-0121140۔ اور مورخہ 01دسمبر2012ہے، تاکہ رقم مذکورہ کی وصولی کی جا سکے۔ اس کے بعد میرے پھر رابطہ کرنے پر یاددہانی کی چٹھیاں بھی لکھی گئیں۔ جن میں سے آخری مورخہ 24مارچ 2012کی ہے۔ مگر کوئی موثر کاروائی عمل میں نہیں ہوئی۔ ابھی تو پوزیشن جوں کی توں ہے۔
اس ضمن میں صوبائی حکومت کی انتظامیہ کو چاہیئے کہ تھا کہ علیحدہ سے ایک ذمہ دار کمیٹی تشکیل دی جاتی جو پہلے وصولی چھان بین زرعی ترقیاتی بنک کے کھاتوں سے کرتی اور قابل وصولی رقوم کی فہرستیں تیار کر کے وصولی اور کاروائی کی مہم شروع کرتی، اور نتیجتاً وصولی بھی وہ سکتی اور ذمہ داران کے خلا ف کاروائی بھی کی جا سکتی۔ مگر ایسا کچھ نہ کیاگیا اور وقت گزارنے کے لئے چند چٹھیاں لکھنے پر ہی اکتفا کیا گیا جو مجرمانہ غفلت ہی نہیں بد عنوانی کی بدترین مثال ہے۔
قابل احترام عدلیہ کے احکام پر اگر وزیر اعظم پاکستان کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے تو یہاں کیوں نہیں؟؟ ہائی کورٹس کفو چاہیئے کہ اس ضمن میں ’’ازخود نوٹس‘‘ لے کر کیس کی چھان بین کروائی جائے، پبلک فنڈز کی وصولی کی جائے۔ اورذمہ داران کے خلاف موثر اور مناسب کاروائی کی جائے۔
No.DS(ST)/CMS/11/OT-47(1150)Pt.22/121140 --CHIEF MINSTER SECRETARIAT PUNJAB. DATED LAHORE THE 24.03.2012.
BY .TALIB HUSSAIN- GUJRANWALA--- VOLUNTEER ADVISER TO ISLAMIC ECONOMY- E.MAIL. chahil20@gmail.com.
Other blog - Web site. www.alfalahshariah.com
0 comments:
Post a Comment