سود "ربا" کی تعبیرات حضرت عمر (رض) کے دور میں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: چوہدری طالب حسین
ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ عزت بخشی، اگر ہم نے عزت کو اسلام کے علاوہ کسی اور نظام حیات میں تلاش کیا تواللہ ہم کی ذلیل کر دے گا (حضرت عمر -رض-اصول فقہ -بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد )
ربا کی دو قسمیں -ربا نسئیہ(ادھار کا سود) --ربا الفضل(زیادہ لینے کا سود)
(انسا ئیکلو پیڈیا -فقہ حضرت عمر(رض)-ادارہ معارف اسلامی لاہور،سے ماخوذ .)
١. ربا نسئیہ.
١. اگر قرض لینے والا قرض دینے والے کو کوئی ہدیہ وغیرہ دے تو یہ ربا نہیں ہے بلکہ حسن وفا متصور ہو گا. حضرت عمر(رض) نے فرمایا کہ ربا یہ ہے کہ کوئی شخص کم دے کر زیادہ لینے کا ارادہ کرے یا ادھار دے کر زیادہ لینے کا ارادہ کرے (عبدالرزاق:٨-١٢٣، المحلی ٨-٥١٣)
حضرت ابی بن کعب(رض )نے حضرت عمر (رض)سے کچھ مال قرض لیا جو غالبا دس ہزار تھے .پھر حضرت ابی بن کعب(رض )نے حضرت عمر کو اپنی کھجوروں میں سے ہدیہ بھیجا....حضرت عمر نے یہ ہدیہ واپس کر دیا .اس پر حضرت ابی نے کہا میں آپ کا مال واپس کر دونگا اور مجھے ایسے مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے آپ نے میری عمدہ کجھوریں واپس کر دی ہیں. اس پر حضرت عمر نے کھجوریں قبول کر لیں اور فرمایا کہ سود اس وقت ہے جب ربا یا نسئیہ ارادہ سے ہو(عبدالرزاق١٤٢/٨،سنن البیہقی ٣٤٩/٥،المحلی٨٦/٨ ،المغنی ٢٢١/٤ ).
٢. مدت کے بالمقابل زیادتی کی شرط کی مثال وہ مشروط کٹوتی(ری بیٹ) ہے جو مدت کے بالمقابل کرائی جاۓ-
٣. دوسری قسم. بیع صرف: (صرف سونے چاندی کا لین دین) میں ایک کا بدل دوسری بدل سے تاخیر سے قبضہ میں لیا.
٤. نیز اجناس ربویہ میں سے جب کسی ایک جنس کو دوسرے جنس کے بدلے میں فروخت کیا جا رہا ہو ایک کا بدل دوسرے بدل سے تاخیر سے قبضہ میں لیا. (المجموع-١٠-٣٥. صحیح مسلم )
(٢). ربا الفضل .
ربا الفضل کا مفہوم یہ ہے کہ اموال ربویہ میں سے کسی ایک شے کو اسی کی ہم جنس کے بدلے میں اضافہ کے ساتھ فروخت کیا جاۓ.
٥ . ربا کی اس قسم کی حرمت کے سلسلہ میں بنیادی ضابطہ نبی کریم(ص) کا یہ ارشاد ہے : کہ سونا سونے کے بدلے میں، چاندی چاندی کے بدلے میں، گندم گندم کے بدلے میں، جو جو کے بدلے میں، کھجور کھجور کے بدلے میں ،نمک نمک کے بدلے میں برابر سرابر اور ایک ہاتھ لو دوسرے ہاتھ دو. جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا،اس نے سود کا کاروبار کیا. جس میں لینے اور دینے والا دونوں برابرگنہگار ہیں۔
(المجموع-١٠-٣٥)اور اس پر اجماع ہے(اخبار القضاة -٢-١٩٣ )
٦. حضرت عمر(رض) سے ایک درہم کو دو درہموں کے بدلے میں فروخت کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس تبادلے میں جو کچھ بڑھے گا وہ ربا ہے(المحلی:٥١٣/٨ ،عبدالرزاق ١٢٣/٨)
٧. حضرت عبدالرحمان بن عوف(رض) نے حضرت عمر سے دریافت کیا کہ ہمیں دھوکہ سے کھوٹے سکے دے دیئے جاتے ہیں اور ہم یہ کھوٹے سکے دے کر کھرے لے لیتے ہیں. حضرت عمر نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ان کی کوئی شے خریدو اورجب وہ قبضہ میں آ جاےٴ تو اسے فروخت کر دو. اور جو جتنا چاہو کم کرو اور جو نقد چاہو لے لو(المجموع:٣٥/١٠)دینار قرض لے کر ان کے بدلے میں درہم ادا کرنے کے سلسلہ میں حضرت عمر(رض) سے مختلف روایات مروی ہیں.( بہرحال بیع صرف میں ،علماۓ اسلام دنانیرسے دراہم کا تبادلہ دست بدست ،تفاضل کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں).
٨. حضرت عمر ڈھال کر بنائی جانی والی چیزوں کی بنوائی کی اجرت عوض(سونے یا چاندی کے) وزن میں اضافے کو ربا شمار کرتے تھے.(ڈاکٹر مولاناڈاکٹرعصمت اللہ صاحب لکھتے ہیں -مزدوری کی صورت یہ ہے کہ بجاۓ سونے یا چاندی میں اضافہ کرنے کے نقد رقم لی جاۓ،جسے بنوائی کہتے ہیں-زر کا تحقیقی مطالعہ -ص -١٨٣-ادارہ المعارف کراچی-پاکستان-سید مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ،زیورات وغیرہ کی شکل میں سونا چاندی کےاستعمال کی حوصلہ شکنی کرتی ہے کیونکہ اس سےسونا چاندی کے متعلق بہت ساری دولت استعمال سے معطل ہو کر رہ جاتی ہے ، بہرحال انہوں نے بھی اس ضمن میں مزدوری لینے کا جواز نقل کیا ہے- حوالہ اسلامی معاشیات دارالاشاعت کراچی -ص-٣٣٧-سال طباعت ندارد)
٩. حضرت عمر تمام غلوں کی ایک ہی جنس تصور کرتے تھے اور ان کے نزدیک ان میں باہم تفاضل اور نسئیہ جائز نہیں ہے. حضرت عمر نے معیقیب کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے پاس موجود جو کے ایک صاع ( پیمانہ)کو ایک مد گندم سے بدل لیا. حضرت عمر نے فرمایا کہ تمہارے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے. غلہ کا تبادلہ مد کا مد کے ساتھ ہونا چاہے.(أیضا)-(مگر مختلف اجناس کی بیع تبادلہ میں تفاضل ،علما ئے اسلام کے نزدیک حدیث متعلقہ کی رو سے درست ہے)
١٠. حضرت عمر ربا الفضل کو حدیث میں مذکور چھ اقسام ہی میں منحصر نہیں سمجھتے تھے،بلکہ آپ ہر اس بیع پر اس کا اطلاق کرتے تھے جس میں خریدوفروخت ایک ہی جنس سے کی جاۓ،چنانچہ جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ کیا سبزہ پیدا ہونے تک ایک بکری کا دو بکریوں سے تبادلہ جائز ہے تو آپ نے اسے مکروہ سمجھا (ابن ابی شیبہ-١-٢٧٧ب -فقہ حضرت عمر (رض ) ادارہ معارف اسلامی لاہور ص-٤٠٥-٤٠٦ ) اس مسئلہ میں مسلم فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا خریدوفروخت میں اس حکم کا اطلاق حدیث میں بیان کردہ چھ چیزوں پر ہے یا قیاس کے ذریعے دوسری چیزوں پر بھی ہوتا ہے.ابتدائی دور کے بعض فقہاء مثلاّ قتاده(رح) اور طاؤس (رح) نے صرف چھ چیزوں تک ہی اس حکم کو منحصر رکھا ، تاہم دوسرے فقہاء نے اس حکم کو اس قسم کی دوسری چیزوں پر بھی لاگو کیاہے.مگرفقہ ظاہری سے تعلق رکھنے والے علماء نے حدیث میں بیان کردہ چھ اشیاء تک ہی اس حکم کو محدود رکھا ہے.(حوالہ "فقہ حضرت عمر-رض-٤٠٤ تا ٤٠٦ )
فقہ حضرت عمر(رض) میں ڈاکٹر محمد روس قلعہ جی نے ہمارے لیے حضرت عمر سے متعلق" بیع الصرف " کے عنوان سے روایات یکجا کی ہیں ،عربی زبان سے انہیں اردو کے قالب میں ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی صاحب نے ڈھالا ہے ، اور ادارہ معارف اسلامی لاہور نے اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کی سعادت اور اعزاز حاصل کیا ہے.
بیع الصرف -تعریف:- بیع الصرف وہ بیع ہے جس میں ایک دوسرے کے معاوضہ میں دی جانے والی دونوں چیزیں از قسم زر نقد ہوں.
احکام .
١١. (الف) اگر ایک دوسرے کے معا وضہ میں دی جانے والی دونوں چیزیں ایک ہی جنس سے ہوں تو تفاضل اور نسئیہ دونوں حرام ہیں. یعنی ضروری ہے کہ دونوں برابر ہوں. اور دونوں طرف سے قبضہ فورا ہو. چانچہ حضرت عمر نے فرمایا کے سونےکو سونے کے بدلے میں فروخت نہ کرو مگر برابر برابر. اور کسی کا وزن ایک دوسرے سے زائد نہ ہو. اور چاندی کو چاندی کے بدلے فروخت نہ کرو مگر برابر سرابر اور کسی کا وزن دوسرے سے زائد نہ ہو(َالموطا٦٣٤/٢،المجموع ٧٠/١٠ ،سنن البیہقی ٢٧٩/٥).نیز آپ نے فرمایا: نہ فروخت کرو سونے کو سونے کے بدلے اور نہ چاندی کو چاندی کے بدلے مگر برابر سرابر اور ایک ہی جنس کا باہم تبادلہ کرتے وقت کمی بیشی کا معاملہ نہ کرو. اور ان میں سے غائب کو حاضر کے بدلے فرخت نہ کرو، اگر اتنی مہلت بھی مانگے کہ گھر میں داخل ہو جاۓ تو اتنی مہلت بھی نہ دو کیونکہ مجھے اس میں ربا کا اندیشہ ہے(عبدالرزاق١٢١/٨)
١٢. حضرت عمر نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ لوگو! اگر درہم کے بدلے درہم اور دینار کے بدلے دینار فروخت کیا جاۓ تو نقدا نقد اور برابر سرابر ہو(المحلی٥١٣،٤٨٩/٨)جتنا لو اتنا ہی دو نیز آپ نے فرمایا: درہم کو درہم کے بدلے میں فروخت کرتے وقت ان میں جو زیادتی ہو گی وہ ربا ہو گی (عبدالرزاق ٢٢٥/٨) اور حضرت عمر نے حاضر نقدی کو قرض کے بدلے فروخت کرنے سے منع فرمایا(سنن البیہقی٢٨/٦،المغنی ٤٩٠/٤)یعنی یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی شخص سو درہم کو سو درہم کے بدلے اس طرح فروخت کرے کہ خود سو درہم اسی وقت لے لے اور خریدار کو ایک ماہ بعد ادا کرے.
١٣. اسی طرح کھرے درہموں کی بیع کھوٹے درہموں کے بدلے جائز نہیں ہے کیونکہ اس طرح ان میں موجود چاندی کی بنا پر ان کے درمیان تفاضل ہو جاۓ گا. اور حضرت عمر نے فرمایا کہ چاندی کے بدلے چاندی اور سونے کے بدلے سونا فروخت کرو تو ہم وزن ہو. اور اگر کسی کے پاس چاندی کے کھوٹے سکے ہوں تو وہ ان کو فروخت کرنے کے لیے یہ قسمیں نہ کھاتا پھرے کہ یہ کھرے ہیں بلکہ یہ کہے کی کون شخص ان کھوٹے سکوں کے بدلے میں میرے ہاتھ پرانے کپڑے فروخت کرتا ہے؟(مصنف عبدالرزاق ٢٢٥/٨)
١٤. حضرت عمر نے چاندی کی فروخت سے منع فرمایا مگر برابر سرابر. ( حضرت عبدالرحمان بن عوف سے متعلقہ روایت پہلے بیان ہو چکی ہے)مزید دیکھنے عبدالرزاق ١٢٣/٨.المحلی٥١٣/٨ .
اور اگر چاندی کو چاندی یا سونےکو سونے کے بدلے میں فروخت کرتے وقت ایک طرف ڈھلا ہوا زیور ہو تو اس کی بنوائی لینا جائز نہیں (پہلے بیان ہو چکا ہے -مزید اگر ضرورت ہو تو ابو رافع سے مروی روایت دیکھیں- عبدالرزاق ١٤٥/٨،سننن البیہقی ٢٩٢/٥ ،المغنی ٨/٤).
۱۵. (الف)حضرت معاویہ (رض) نے سونے کا یا چاندی کا پیالہ اس کے وزن سے زائدچاندی یا سونے(یعنی تفاضل سے چاندی چاندی کے بدلے یا سونا سونے ) کے بدلے میں فروخت کیا تو حضرت ابودردا(رض) نے کہا کہ میں نے رسول کریم(ص)سے سنا ہے کہ آپ ایسے سودے سے منع فرمایا کرتے تھے الا یہ کہ برابر سرابر ہو. اس پر حضرت معاویہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ایسے سودے میں کوئی حرج نہیں. حضرت ابو الدردا (رض)بولے،معاویہ کے بارے میں مجھے کون معذور سمجھے گا؟ میں انہیں حدیث رسول سنا رہا ہوں اور وہ مجھے اپنی راۓ بتا رہے ہیں، لہذا میں اب اس سرزمیں میں نہیں رہوں گا،جہاں تم رہتے ہو. بعد ازان حضرت ابو الد ردا حضرت عمر کے پاس آ ئے اور انہیں واقعہ بتایا. حضرت عمر نے حضرت معا و یہ کو لکھا کہ چاندی اور سونے کو برابر برابر اور ہم وزں فروخت کرو .(الموطا ٦٣٤/٢)
١٦. (ب) اگر زر نقد ہونے کے باوجود دونوں عوض جنس میں مختلف ہوں،مثلاّ ایک عوض سونا ہو اور دوسرا چاندی ہو تو تفاضل (زیادتی) جائز اور نسئیہ(ادھار) حرام ہے .
١٧. حضرت عمر نے فرمایا کہ تم لوگ خیال کرتے ہو کہ ہمیں ربا کے ابواب معلوم نہیں ہیں. میرے لئے تو ان کا علم مصر اور اس کے پورے علاقے سے زیادہ بہتر ہے. بہرحال چند مسائل ایسے ہیں جو کسی پر مخفی نہ رہنے چاہیں یہ کہ سونے کو چاندی کے بدلے ادھار فروخت نہ کیا جائے اور نہ سودا کیا جاۓ کچے پھل کا جو ابھی زرد ہو اور پکا نہ ہو اور جانوروں میں بیع سلم نہ کی جاۓ(عبدالرزاق ٢٦/٨،المجموع ٢١/١٠) نیز آپ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی بیع صرف کرے تو اس وقت تک جدا نہ ہوں جب تک خریدی ہوئی شے کا قبضہ نہ لےلے. اگر بائع یا مشتری اتنی بھی مہلت مانگے کہ گھر ہو آئے تو اسے یہ مہلت بھی نہ دو مجھے ربا کا اندیشہ ہے(عبدالرزاق ١١٦/٨).
کتاب مذکورہ "فقہ حضرت عمر(رض)" از ڈاکٹر قلعہ روس جی (ترجمہ)-ص.٤٠٦ پر لکھتے ہیں کہ. ربا کے معاملے میں حضرت عمر بہت محتاط ہو گئے تھے ،چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے. قرآن میں آخری آیت،آیت ربا نازل ہوئی. رسول اکرم(ص) دنیا سے تشریف لے گئے اور آپ نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی ،اس لئے ربا سے بھی بچو اور ریبہ(شک) سے بھی بچو.
اسی احتیاط کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمر(رض) نے حضرت عبداللہ بن مسعود(رض)کی زوجہ زینب(رض)کو قرض میں دیے ہویے دینار کے بدلے میں درہم قبول کرنے یا اس کے برعکس دراہم دے کر دینار قبول کرنے کی اجازت نہیں دی.اسی احتمال کے تحت ہو سکتا ہے کہ دراہم کی قیمت دینار سے بڑھ جاۓ . اور اسی بنا پر آپ نے پترے چڑھی ہوئی تلوار کو ردی دراہم کے بدلے میں فروخت کرنے یا ان پتروں سے زائد چاندی کے عوض فروخت کرنے سے منع فرما دیا تھا.اسی بنا پر آپ نے بیع سفتجہ (ہنڈی) کو مکروہ قرار دیا. اور اسی وجہ سے آپ نے زیورات (ڈھلی ہوئی اشیا) میں ڈھالنےکے ہنر کی قیمت کو ساقط کر دیا اور اس کی فروخت سے منع کیا الا یہ کہ برارہ سر١بر ہو.(ص-٤٠٦محولہ بالاکتاب) اوپرپوائنٹ نمبر ١٢ کے ضمن میں اور اس روایت کے بیان کی بابت صاحب"سود پر تاریخی فیصلہ-پیرا-٦٥ " مکتبہ معارف القرآن کراچی لکھتے ہیں "کہ حضرت عمر کے شبہات صرف "رباالفضل" کی حرمت سے متعلق تھے ،جہاں تک"ربالقرآن "یا "رباالنسیئه" کا تعلق ہے،ان کو اس کی حقیقت کے بارے میں زرہ برابر بھی شبہ نہ تھا.
١٨. مالک بن اوس بن حدثان روایت کرتے ہیں کہ میں نے طلحہٰ بن عبداللہ سے سونے کے بدلے چاندی خریدی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اتنی مہلت دیں کہ ہمارا خاندان غا بہ سے آ جاۓ .یہ بات حضرت عمر نے سنی تو فرمایا کہ نہیں اس وقت تک جدا نہ ہو جب تک اپنی اپنی صرف(خریدی ہوئی شے)قبضہ میں نہ لے لو کہ میں نے رسول اکرم(ص) کو فرماتے سنا ہے کہ سونے کے بدلے میں سونا خریدنا سود ہے الا یہ کہ دست بدست ہو(مسند احمد٥٣/١،عبدالرزاق ١١٦/٨ ،المحلی٤٨٨/٨،المغنی ١٠/٤).
١٩.حکیم بن حزم عہد عمر میں مقام جار میں غلہ وغیرہ خرید لیتے .حضرت عمر نے انہیں منع کیا کہ جب تک وہ غلہ تمہارے قبضہ میں نہ آ جاۓ تم اسے فروخت نہ کرو.(عبدالرزاق ٢٩/٨،سنن البیہقی ٣١٢/٥)
٢٠. قرض کی معیاد کو فروخت کرنا جائز نہیں،حضرت ابن عمر(رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر(رض) نے فرمایا کہ کوئی عین (شی)قرض کے بدلے میں فروخت نہ کی جائے(المغنی ٤٩٠/٤،سنن البیہقی ٢٨/٦)جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جائز نہیں کہ کسی ایسے قرض کے بارے میں جس کے لئےمیعاد مقرر ہو یہ سمجھوتہ کیا جاۓ کہ اگر مقررہ معیاد کی بجاۓ فورا ادا کر دو تو کل رقم کی بجاۓ اس قدر کم دے دو. اس لیے کہ اس صورت میں قرض خواہ نے قرض کے ذمہ جو قرض ہے اس کا ایک حصہ اس کے بدلے میں ساقط کر دیا ہے کہ قرض جلد ادا کر دیا جاۓ . اور حلول و تاجیل کی بیع جائز نہیں.(فقہ حضرت عمر -محولہ بالا -ص-١٦٩ )
٢١. مضاربت. بروایت امام مالک-رح- ،(یعنی) جبکہ حضرت عمر (رض)کے دونوں صاحبزادے جناب عبداللہ(رض) اور عبیداللہ (رض) ایک لشکر میں عراق تشریف لے گئے اور وہاں کے عامل حضرت ابو موسیٰ(اشعری -رض) نے انہیں کچھ رقم بطور قرض دے دی جس سے(ان)دونوں حضرت نے تجارت کا سامان خرید لیا
اور اس میں کچھ رقم دونوں کو منافع میں آئ.(یہ معاملہ حضرت عمر-رض- کے سامنے لا یا گیا اور بحث و مباحث کے بعد حضرت عمر نے حکم دیا کہ ) منفع کا نصف بیت المال میں داخل کرا دو اور نصف حضرت عبدللہ اور عبیداللہ دونوں نے لے لیا. حضرت شاہ ولی اللہ-رح- فرماتے ہیں.مزنی -رح-لکھتے ہیں ،امیرالمومنین کی منافع میں یہ تقسیم کہ ١/٢ بیت المال اور ١/٢ دونوں (فرزندان امیرالمومنین )
کو دیا جاۓ،تو اس کی توجیہ میرے امام(مزنی)کے نزدیک یہ ہے کہ حضرت عبدالله اور عبیداللہ نے بھی یہ فیصلہ بطیب خطر منظور کر لیا.(فقہ عمر -ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور.ص-١٤٦)
نوٹ:- مندرجہ بالا گفتگو سے یہ نتیجہ تو اخذ ہوتا ہے کہ رباالفضل کے بارہ میں حضرت عمر (رض) کی روایات موجود ہیں،لیکن رباالقرآن کے بارہ میں وضاحت کی ضرورت ہے. حضرت ابوبکر (رض) کی طرح یہ امرکہ حضرت عمر کے نزدیک "ربالقرآن" کا مفہوم کیا تھا ،تحقیق طلب ہے؟
ربا کی دو قسمیں -ربا نسئیہ(ادھار کا سود) --ربا الفضل(زیادہ لینے کا سود)
(انسا ئیکلو پیڈیا -فقہ حضرت عمر(رض)-ادارہ معارف اسلامی لاہور،سے ماخوذ .)
١. ربا نسئیہ.
١. اگر قرض لینے والا قرض دینے والے کو کوئی ہدیہ وغیرہ دے تو یہ ربا نہیں ہے بلکہ حسن وفا متصور ہو گا. حضرت عمر(رض) نے فرمایا کہ ربا یہ ہے کہ کوئی شخص کم دے کر زیادہ لینے کا ارادہ کرے یا ادھار دے کر زیادہ لینے کا ارادہ کرے (عبدالرزاق:٨-١٢٣، المحلی ٨-٥١٣)
حضرت ابی بن کعب(رض )نے حضرت عمر (رض)سے کچھ مال قرض لیا جو غالبا دس ہزار تھے .پھر حضرت ابی بن کعب(رض )نے حضرت عمر کو اپنی کھجوروں میں سے ہدیہ بھیجا....حضرت عمر نے یہ ہدیہ واپس کر دیا .اس پر حضرت ابی نے کہا میں آپ کا مال واپس کر دونگا اور مجھے ایسے مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے آپ نے میری عمدہ کجھوریں واپس کر دی ہیں. اس پر حضرت عمر نے کھجوریں قبول کر لیں اور فرمایا کہ سود اس وقت ہے جب ربا یا نسئیہ ارادہ سے ہو(عبدالرزاق١٤٢/٨،سنن البیہقی ٣٤٩/٥،المحلی٨٦/٨ ،المغنی ٢٢١/٤ ).
٢. مدت کے بالمقابل زیادتی کی شرط کی مثال وہ مشروط کٹوتی(ری بیٹ) ہے جو مدت کے بالمقابل کرائی جاۓ-
٣. دوسری قسم. بیع صرف: (صرف سونے چاندی کا لین دین) میں ایک کا بدل دوسری بدل سے تاخیر سے قبضہ میں لیا.
٤. نیز اجناس ربویہ میں سے جب کسی ایک جنس کو دوسرے جنس کے بدلے میں فروخت کیا جا رہا ہو ایک کا بدل دوسرے بدل سے تاخیر سے قبضہ میں لیا. (المجموع-١٠-٣٥. صحیح مسلم )
(٢). ربا الفضل .
ربا الفضل کا مفہوم یہ ہے کہ اموال ربویہ میں سے کسی ایک شے کو اسی کی ہم جنس کے بدلے میں اضافہ کے ساتھ فروخت کیا جاۓ.
٥ . ربا کی اس قسم کی حرمت کے سلسلہ میں بنیادی ضابطہ نبی کریم(ص) کا یہ ارشاد ہے : کہ سونا سونے کے بدلے میں، چاندی چاندی کے بدلے میں، گندم گندم کے بدلے میں، جو جو کے بدلے میں، کھجور کھجور کے بدلے میں ،نمک نمک کے بدلے میں برابر سرابر اور ایک ہاتھ لو دوسرے ہاتھ دو. جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا،اس نے سود کا کاروبار کیا. جس میں لینے اور دینے والا دونوں برابرگنہگار ہیں۔
(المجموع-١٠-٣٥)اور اس پر اجماع ہے(اخبار القضاة -٢-١٩٣ )
٦. حضرت عمر(رض) سے ایک درہم کو دو درہموں کے بدلے میں فروخت کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس تبادلے میں جو کچھ بڑھے گا وہ ربا ہے(المحلی:٥١٣/٨ ،عبدالرزاق ١٢٣/٨)
٧. حضرت عبدالرحمان بن عوف(رض) نے حضرت عمر سے دریافت کیا کہ ہمیں دھوکہ سے کھوٹے سکے دے دیئے جاتے ہیں اور ہم یہ کھوٹے سکے دے کر کھرے لے لیتے ہیں. حضرت عمر نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ان کی کوئی شے خریدو اورجب وہ قبضہ میں آ جاےٴ تو اسے فروخت کر دو. اور جو جتنا چاہو کم کرو اور جو نقد چاہو لے لو(المجموع:٣٥/١٠)دینار قرض لے کر ان کے بدلے میں درہم ادا کرنے کے سلسلہ میں حضرت عمر(رض) سے مختلف روایات مروی ہیں.( بہرحال بیع صرف میں ،علماۓ اسلام دنانیرسے دراہم کا تبادلہ دست بدست ،تفاضل کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں).
٨. حضرت عمر ڈھال کر بنائی جانی والی چیزوں کی بنوائی کی اجرت عوض(سونے یا چاندی کے) وزن میں اضافے کو ربا شمار کرتے تھے.(ڈاکٹر مولاناڈاکٹرعصمت اللہ صاحب لکھتے ہیں -مزدوری کی صورت یہ ہے کہ بجاۓ سونے یا چاندی میں اضافہ کرنے کے نقد رقم لی جاۓ،جسے بنوائی کہتے ہیں-زر کا تحقیقی مطالعہ -ص -١٨٣-ادارہ المعارف کراچی-پاکستان-سید مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ،زیورات وغیرہ کی شکل میں سونا چاندی کےاستعمال کی حوصلہ شکنی کرتی ہے کیونکہ اس سےسونا چاندی کے متعلق بہت ساری دولت استعمال سے معطل ہو کر رہ جاتی ہے ، بہرحال انہوں نے بھی اس ضمن میں مزدوری لینے کا جواز نقل کیا ہے- حوالہ اسلامی معاشیات دارالاشاعت کراچی -ص-٣٣٧-سال طباعت ندارد)
٩. حضرت عمر تمام غلوں کی ایک ہی جنس تصور کرتے تھے اور ان کے نزدیک ان میں باہم تفاضل اور نسئیہ جائز نہیں ہے. حضرت عمر نے معیقیب کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے پاس موجود جو کے ایک صاع ( پیمانہ)کو ایک مد گندم سے بدل لیا. حضرت عمر نے فرمایا کہ تمہارے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے. غلہ کا تبادلہ مد کا مد کے ساتھ ہونا چاہے.(أیضا)-(مگر مختلف اجناس کی بیع تبادلہ میں تفاضل ،علما ئے اسلام کے نزدیک حدیث متعلقہ کی رو سے درست ہے)
١٠. حضرت عمر ربا الفضل کو حدیث میں مذکور چھ اقسام ہی میں منحصر نہیں سمجھتے تھے،بلکہ آپ ہر اس بیع پر اس کا اطلاق کرتے تھے جس میں خریدوفروخت ایک ہی جنس سے کی جاۓ،چنانچہ جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ کیا سبزہ پیدا ہونے تک ایک بکری کا دو بکریوں سے تبادلہ جائز ہے تو آپ نے اسے مکروہ سمجھا (ابن ابی شیبہ-١-٢٧٧ب -فقہ حضرت عمر (رض ) ادارہ معارف اسلامی لاہور ص-٤٠٥-٤٠٦ ) اس مسئلہ میں مسلم فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا خریدوفروخت میں اس حکم کا اطلاق حدیث میں بیان کردہ چھ چیزوں پر ہے یا قیاس کے ذریعے دوسری چیزوں پر بھی ہوتا ہے.ابتدائی دور کے بعض فقہاء مثلاّ قتاده(رح) اور طاؤس (رح) نے صرف چھ چیزوں تک ہی اس حکم کو منحصر رکھا ، تاہم دوسرے فقہاء نے اس حکم کو اس قسم کی دوسری چیزوں پر بھی لاگو کیاہے.مگرفقہ ظاہری سے تعلق رکھنے والے علماء نے حدیث میں بیان کردہ چھ اشیاء تک ہی اس حکم کو محدود رکھا ہے.(حوالہ "فقہ حضرت عمر-رض-٤٠٤ تا ٤٠٦ )
فقہ حضرت عمر(رض) میں ڈاکٹر محمد روس قلعہ جی نے ہمارے لیے حضرت عمر سے متعلق" بیع الصرف " کے عنوان سے روایات یکجا کی ہیں ،عربی زبان سے انہیں اردو کے قالب میں ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی صاحب نے ڈھالا ہے ، اور ادارہ معارف اسلامی لاہور نے اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کی سعادت اور اعزاز حاصل کیا ہے.
بیع الصرف -تعریف:- بیع الصرف وہ بیع ہے جس میں ایک دوسرے کے معاوضہ میں دی جانے والی دونوں چیزیں از قسم زر نقد ہوں.
احکام .
١١. (الف) اگر ایک دوسرے کے معا وضہ میں دی جانے والی دونوں چیزیں ایک ہی جنس سے ہوں تو تفاضل اور نسئیہ دونوں حرام ہیں. یعنی ضروری ہے کہ دونوں برابر ہوں. اور دونوں طرف سے قبضہ فورا ہو. چانچہ حضرت عمر نے فرمایا کے سونےکو سونے کے بدلے میں فروخت نہ کرو مگر برابر برابر. اور کسی کا وزن ایک دوسرے سے زائد نہ ہو. اور چاندی کو چاندی کے بدلے فروخت نہ کرو مگر برابر سرابر اور کسی کا وزن دوسرے سے زائد نہ ہو(َالموطا٦٣٤/٢،المجموع ٧٠/١٠ ،سنن البیہقی ٢٧٩/٥).نیز آپ نے فرمایا: نہ فروخت کرو سونے کو سونے کے بدلے اور نہ چاندی کو چاندی کے بدلے مگر برابر سرابر اور ایک ہی جنس کا باہم تبادلہ کرتے وقت کمی بیشی کا معاملہ نہ کرو. اور ان میں سے غائب کو حاضر کے بدلے فرخت نہ کرو، اگر اتنی مہلت بھی مانگے کہ گھر میں داخل ہو جاۓ تو اتنی مہلت بھی نہ دو کیونکہ مجھے اس میں ربا کا اندیشہ ہے(عبدالرزاق١٢١/٨)
١٢. حضرت عمر نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ لوگو! اگر درہم کے بدلے درہم اور دینار کے بدلے دینار فروخت کیا جاۓ تو نقدا نقد اور برابر سرابر ہو(المحلی٥١٣،٤٨٩/٨)جتنا لو اتنا ہی دو نیز آپ نے فرمایا: درہم کو درہم کے بدلے میں فروخت کرتے وقت ان میں جو زیادتی ہو گی وہ ربا ہو گی (عبدالرزاق ٢٢٥/٨) اور حضرت عمر نے حاضر نقدی کو قرض کے بدلے فروخت کرنے سے منع فرمایا(سنن البیہقی٢٨/٦،المغنی ٤٩٠/٤)یعنی یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی شخص سو درہم کو سو درہم کے بدلے اس طرح فروخت کرے کہ خود سو درہم اسی وقت لے لے اور خریدار کو ایک ماہ بعد ادا کرے.
١٣. اسی طرح کھرے درہموں کی بیع کھوٹے درہموں کے بدلے جائز نہیں ہے کیونکہ اس طرح ان میں موجود چاندی کی بنا پر ان کے درمیان تفاضل ہو جاۓ گا. اور حضرت عمر نے فرمایا کہ چاندی کے بدلے چاندی اور سونے کے بدلے سونا فروخت کرو تو ہم وزن ہو. اور اگر کسی کے پاس چاندی کے کھوٹے سکے ہوں تو وہ ان کو فروخت کرنے کے لیے یہ قسمیں نہ کھاتا پھرے کہ یہ کھرے ہیں بلکہ یہ کہے کی کون شخص ان کھوٹے سکوں کے بدلے میں میرے ہاتھ پرانے کپڑے فروخت کرتا ہے؟(مصنف عبدالرزاق ٢٢٥/٨)
١٤. حضرت عمر نے چاندی کی فروخت سے منع فرمایا مگر برابر سرابر. ( حضرت عبدالرحمان بن عوف سے متعلقہ روایت پہلے بیان ہو چکی ہے)مزید دیکھنے عبدالرزاق ١٢٣/٨.المحلی٥١٣/٨ .
اور اگر چاندی کو چاندی یا سونےکو سونے کے بدلے میں فروخت کرتے وقت ایک طرف ڈھلا ہوا زیور ہو تو اس کی بنوائی لینا جائز نہیں (پہلے بیان ہو چکا ہے -مزید اگر ضرورت ہو تو ابو رافع سے مروی روایت دیکھیں- عبدالرزاق ١٤٥/٨،سننن البیہقی ٢٩٢/٥ ،المغنی ٨/٤).
۱۵. (الف)حضرت معاویہ (رض) نے سونے کا یا چاندی کا پیالہ اس کے وزن سے زائدچاندی یا سونے(یعنی تفاضل سے چاندی چاندی کے بدلے یا سونا سونے ) کے بدلے میں فروخت کیا تو حضرت ابودردا(رض) نے کہا کہ میں نے رسول کریم(ص)سے سنا ہے کہ آپ ایسے سودے سے منع فرمایا کرتے تھے الا یہ کہ برابر سرابر ہو. اس پر حضرت معاویہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ایسے سودے میں کوئی حرج نہیں. حضرت ابو الدردا (رض)بولے،معاویہ کے بارے میں مجھے کون معذور سمجھے گا؟ میں انہیں حدیث رسول سنا رہا ہوں اور وہ مجھے اپنی راۓ بتا رہے ہیں، لہذا میں اب اس سرزمیں میں نہیں رہوں گا،جہاں تم رہتے ہو. بعد ازان حضرت ابو الد ردا حضرت عمر کے پاس آ ئے اور انہیں واقعہ بتایا. حضرت عمر نے حضرت معا و یہ کو لکھا کہ چاندی اور سونے کو برابر برابر اور ہم وزں فروخت کرو .(الموطا ٦٣٤/٢)
١٦. (ب) اگر زر نقد ہونے کے باوجود دونوں عوض جنس میں مختلف ہوں،مثلاّ ایک عوض سونا ہو اور دوسرا چاندی ہو تو تفاضل (زیادتی) جائز اور نسئیہ(ادھار) حرام ہے .
١٧. حضرت عمر نے فرمایا کہ تم لوگ خیال کرتے ہو کہ ہمیں ربا کے ابواب معلوم نہیں ہیں. میرے لئے تو ان کا علم مصر اور اس کے پورے علاقے سے زیادہ بہتر ہے. بہرحال چند مسائل ایسے ہیں جو کسی پر مخفی نہ رہنے چاہیں یہ کہ سونے کو چاندی کے بدلے ادھار فروخت نہ کیا جائے اور نہ سودا کیا جاۓ کچے پھل کا جو ابھی زرد ہو اور پکا نہ ہو اور جانوروں میں بیع سلم نہ کی جاۓ(عبدالرزاق ٢٦/٨،المجموع ٢١/١٠) نیز آپ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی بیع صرف کرے تو اس وقت تک جدا نہ ہوں جب تک خریدی ہوئی شے کا قبضہ نہ لےلے. اگر بائع یا مشتری اتنی بھی مہلت مانگے کہ گھر ہو آئے تو اسے یہ مہلت بھی نہ دو مجھے ربا کا اندیشہ ہے(عبدالرزاق ١١٦/٨).
کتاب مذکورہ "فقہ حضرت عمر(رض)" از ڈاکٹر قلعہ روس جی (ترجمہ)-ص.٤٠٦ پر لکھتے ہیں کہ. ربا کے معاملے میں حضرت عمر بہت محتاط ہو گئے تھے ،چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے. قرآن میں آخری آیت،آیت ربا نازل ہوئی. رسول اکرم(ص) دنیا سے تشریف لے گئے اور آپ نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی ،اس لئے ربا سے بھی بچو اور ریبہ(شک) سے بھی بچو.
اسی احتیاط کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمر(رض) نے حضرت عبداللہ بن مسعود(رض)کی زوجہ زینب(رض)کو قرض میں دیے ہویے دینار کے بدلے میں درہم قبول کرنے یا اس کے برعکس دراہم دے کر دینار قبول کرنے کی اجازت نہیں دی.اسی احتمال کے تحت ہو سکتا ہے کہ دراہم کی قیمت دینار سے بڑھ جاۓ . اور اسی بنا پر آپ نے پترے چڑھی ہوئی تلوار کو ردی دراہم کے بدلے میں فروخت کرنے یا ان پتروں سے زائد چاندی کے عوض فروخت کرنے سے منع فرما دیا تھا.اسی بنا پر آپ نے بیع سفتجہ (ہنڈی) کو مکروہ قرار دیا. اور اسی وجہ سے آپ نے زیورات (ڈھلی ہوئی اشیا) میں ڈھالنےکے ہنر کی قیمت کو ساقط کر دیا اور اس کی فروخت سے منع کیا الا یہ کہ برارہ سر١بر ہو.(ص-٤٠٦محولہ بالاکتاب) اوپرپوائنٹ نمبر ١٢ کے ضمن میں اور اس روایت کے بیان کی بابت صاحب"سود پر تاریخی فیصلہ-پیرا-٦٥ " مکتبہ معارف القرآن کراچی لکھتے ہیں "کہ حضرت عمر کے شبہات صرف "رباالفضل" کی حرمت سے متعلق تھے ،جہاں تک"ربالقرآن "یا "رباالنسیئه" کا تعلق ہے،ان کو اس کی حقیقت کے بارے میں زرہ برابر بھی شبہ نہ تھا.
١٨. مالک بن اوس بن حدثان روایت کرتے ہیں کہ میں نے طلحہٰ بن عبداللہ سے سونے کے بدلے چاندی خریدی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اتنی مہلت دیں کہ ہمارا خاندان غا بہ سے آ جاۓ .یہ بات حضرت عمر نے سنی تو فرمایا کہ نہیں اس وقت تک جدا نہ ہو جب تک اپنی اپنی صرف(خریدی ہوئی شے)قبضہ میں نہ لے لو کہ میں نے رسول اکرم(ص) کو فرماتے سنا ہے کہ سونے کے بدلے میں سونا خریدنا سود ہے الا یہ کہ دست بدست ہو(مسند احمد٥٣/١،عبدالرزاق ١١٦/٨ ،المحلی٤٨٨/٨،المغنی ١٠/٤).
١٩.حکیم بن حزم عہد عمر میں مقام جار میں غلہ وغیرہ خرید لیتے .حضرت عمر نے انہیں منع کیا کہ جب تک وہ غلہ تمہارے قبضہ میں نہ آ جاۓ تم اسے فروخت نہ کرو.(عبدالرزاق ٢٩/٨،سنن البیہقی ٣١٢/٥)
٢٠. قرض کی معیاد کو فروخت کرنا جائز نہیں،حضرت ابن عمر(رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر(رض) نے فرمایا کہ کوئی عین (شی)قرض کے بدلے میں فروخت نہ کی جائے(المغنی ٤٩٠/٤،سنن البیہقی ٢٨/٦)جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جائز نہیں کہ کسی ایسے قرض کے بارے میں جس کے لئےمیعاد مقرر ہو یہ سمجھوتہ کیا جاۓ کہ اگر مقررہ معیاد کی بجاۓ فورا ادا کر دو تو کل رقم کی بجاۓ اس قدر کم دے دو. اس لیے کہ اس صورت میں قرض خواہ نے قرض کے ذمہ جو قرض ہے اس کا ایک حصہ اس کے بدلے میں ساقط کر دیا ہے کہ قرض جلد ادا کر دیا جاۓ . اور حلول و تاجیل کی بیع جائز نہیں.(فقہ حضرت عمر -محولہ بالا -ص-١٦٩ )
٢١. مضاربت. بروایت امام مالک-رح- ،(یعنی) جبکہ حضرت عمر (رض)کے دونوں صاحبزادے جناب عبداللہ(رض) اور عبیداللہ (رض) ایک لشکر میں عراق تشریف لے گئے اور وہاں کے عامل حضرت ابو موسیٰ(اشعری -رض) نے انہیں کچھ رقم بطور قرض دے دی جس سے(ان)دونوں حضرت نے تجارت کا سامان خرید لیا
اور اس میں کچھ رقم دونوں کو منافع میں آئ.(یہ معاملہ حضرت عمر-رض- کے سامنے لا یا گیا اور بحث و مباحث کے بعد حضرت عمر نے حکم دیا کہ ) منفع کا نصف بیت المال میں داخل کرا دو اور نصف حضرت عبدللہ اور عبیداللہ دونوں نے لے لیا. حضرت شاہ ولی اللہ-رح- فرماتے ہیں.مزنی -رح-لکھتے ہیں ،امیرالمومنین کی منافع میں یہ تقسیم کہ ١/٢ بیت المال اور ١/٢ دونوں (فرزندان امیرالمومنین )
کو دیا جاۓ،تو اس کی توجیہ میرے امام(مزنی)کے نزدیک یہ ہے کہ حضرت عبدالله اور عبیداللہ نے بھی یہ فیصلہ بطیب خطر منظور کر لیا.(فقہ عمر -ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور.ص-١٤٦)
نوٹ:- مندرجہ بالا گفتگو سے یہ نتیجہ تو اخذ ہوتا ہے کہ رباالفضل کے بارہ میں حضرت عمر (رض) کی روایات موجود ہیں،لیکن رباالقرآن کے بارہ میں وضاحت کی ضرورت ہے. حضرت ابوبکر (رض) کی طرح یہ امرکہ حضرت عمر کے نزدیک "ربالقرآن" کا مفہوم کیا تھا ،تحقیق طلب ہے؟
0 comments:
Post a Comment