Leave a Comment

اسلام میں عورت -تقسیم وراثت -کسب و معاش پر منبی چند مباحث

 اسلام میں عورت--- تقسیم وراثت ، کسبِ معاش پر مبنی چند مباحث
مرد اور عورت دونوں کو قرآن مجید قابل عزت و توقیر قرار دیتا ہے --لقد کرمنا بنی آدم " دونوں انسانیت کے گل سرسبد ہیں دونوں ذریت آدم میں داخل ہیں دونوں عمارت تمدن کے معمار ہیں اور دونوں انسانیت کے یکساں اجزا ہیں. قران کریم فرماتا ہے " اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور پھر دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں ٤/١"--پھر فرماتا ہے وہ مرد ہو یا عورت تم باہم ایک دوسرے کے ہم جنس
ہو --"تمدنی اصلاح اور معاشرتی فلاح و بہبود میں دونوں یکساں کردار ادا کرتے ہیں اگرچہ دونوں کا دائرۂ عمل مختلف اور جداگانہ ہے- قرآن کریم  فرقان حمید میں ارشاد ہوتا ہے.مومن مرد اور مومن عورتیں سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں جو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں -٩/٧١ " صرف معاشرتی اصلاح ہی نہیں بلکہ جہاں کہیں بھی معاشرتی بگاڑ اور تمدنی فساد پیدا ہوا ہے، یا ہو گا اس کی ذمہ داری بھی دونوں اصناف بشر پر ہے . قرآن میں حکم ہے."منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں جو برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں ٩/٦٧"(قرآن اور عورت- از ڈاکٹر پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی -صفحہ ٢٤٧-٢٤٨)
عورت کی گواہی آدھی کیوں؟، جائیداد میں آدھا حصہ کیوں ؟عورت اور مرد کے تعلق پر مبنی ایسے تمام سوالات علوم اسلامیہ کے ماہرین، سلیم الفطرت اصحاب فکر اور راسخ العقیده مسلمانوں پر بالکل واضح ہیں . ان کے نزدیک کھبی یہ سوال ہی نہیں رہا کہ عورت کی گواہی بعض معاملات میں کیوں معتبر نہیں ہے ؟
ان  کی سوچ کا رخ کھبی اس طرف نہیں مڑتا کہ باپ کی وراثت میں بیٹی کا حصہ بھائی کے مقابلہ میں نصف کیوں ہے؟ کیونکہ وہ  جانتے ہیں کے اگر کسی ایک معاملے میں عورت کی گواہی مرجوح ہے تو کسی دوسرے معاملے میں مرد کی گواہی کا سرے سے امکان ہی نہیں ہے، انہیں علم ہے کہ بحثیت بیٹی اگر عورت باپ کی وراثت میں بھائی کے مقابلے میں نصف کی حقدار ہے تو بعض حالات میں بحثیت بہن، بھائی کی جائیداد میں مرد کی طرح برابر حصہ پاتی ہے. وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو تمام معاشی ذمہ داریوں سے بری الزمہ قرار دے کر اس پر احسان عزیم کیا ہے. لہذا وراثت میں اگر اس کا حصہ کم ہے تو دوسری طرف اس پر کوئی بار بھی نہیں ہے.عصر حاضر میں بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی قیادت متحد نہیں ہے. اس لیے صنعت و حرفت کی معمولی اشیا سے لے کر زندگی گزارنے کے لیے بہت سے افکار و نظریات بھی مغربی طرز حیات سے لینے کا رجحان مسلم معاشروں میں عام پایا جاتا ہے. دوسری طرف ستم ظریفی یہ ہے کہ ملکی امور طے کرنے والے بیشتر شعبوں کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتوں میں ہے جنھیں دین کا زیادہ علم نہیں ہے لیکن وہ خود کو ہر معاملے میں عقل کل سمجھتے کے عادی ہو چکے ہیں.(ماخذ تحریر از ڈاکٹر شہزاد اقبال شام )
آجکل عورت کو مرد کے حزب اختلاف کے طور پر پیش کرنے والے عورت کا تقدس اور رشتوں کو بھول جاتے ہیں.عورت ماں،بہن بیٹی، بیوی ہے ،اور انسان کو ایک مرداور ایک عورت سے پیدا کیا گیا ہے - کون بڑا  کون چھوٹا؟ یہ سوال ہی غیر اہم اور بودا ہے. یہ مسلہء ایک بیمار کا ڈاکٹر کو مشورہ دینے کے مترادف ہے . یہاں ہم عورت کو وراثت کی تقسیم کے حوالے سے مختصر نوٹ پیش کرتے ہیں ،جو کہ ڈاکٹر شہزاد اقبال شام -- بین الاقومی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد- کی تحریر سے اخذ کیا  گیا ہے --
کفالت سے براءت اور وراثت--عورت کے حوالے سے.
وراثت کے احکام کا مطالعہ کرنے سے قبل ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پیدائش سے موت تک عورت کی تمام معاشی ضروریات اس کے مرد رشتے داروں کے ذمہ ہیں . اولا باپ اس کی کفالت کرتا ہے. بالغ ہونے پر اس کی شادی کا ذمہ دار بھی وھی ہے. علیحدگی کی صورت میں وہ اس کی مظبوط پشت کی صورت میں موجود ہے. باپ زندہ نہ ہو تو یہ فرائض بھائی وغیرہ کے ذمہ ہیں. شادی کے بعد اس کی تمام مالی ضروریات پورا کرنا اس کے شوہر کے ذمہ ہے. شوہر فوت ہو جاۓ،بچے نابالغ ہوں تو بیوہ کے احکام کے تحت عام مسلمانوں پر اس کی کفالت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے. بیٹے کمانے والے ہوں تو ماں کی کفالت ان کے ذمہ ہے. گویا اس کے بچوں کی کفالت ہی نہیں، خود اس کی اپنی کفالت بھی کسی اور کے ذمہ ہے. ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھا جاۓ تو باپ کی وراثت میں بھائی کے دو حصوں کے مقابلہ میں عورت کا ایک حصہ ہونا قابل فہم ہے، کیونکہ اس کا بالمقابل بھائی باپ کی میراث سے دو حصے لے کےاپنی ،اپنے اہل و عیال اور بعض صورتوں میں ماں باپ اور بہنوں تک کی کفالت کا مکلف ہے جب کہ عورت باپ کی جائیداد سے ایک حصہ لے کر بھی اپنی تمام ضروریات شوہر سے پوری کرتی ہے. وراثت کے ضمن میں باپ کی میراث میں بہن بھائی ہی کے دو یا ایک حصے کو زیر بحث نہیں لانا چاہے کیونکہ عورت دوسرے حیثیتوں ،جیسے ماں،بیٹی اور بیوی کی حیثیت میں بھی اپنے رشتے داروں کی میراث میں حصہ پاتی ہے اور کئی مواقع پر اس کا حصہ بالمقابل مرد کے برابر ہوتا ہے. جیسے کسی میت کا کوئی بیٹا یا پوتا ہو تو میت کے باپ کو کل میراث کا چھٹا حصہ ملتا ہے. اسی طرح میت کی اولاد ہونے کی صورت میں میت کی ماں کو بھی میراث میں سے چھٹا حصہ ملتا ہے. گویا اس صورت میں ماں اور باپ یکساں حیثیت کے حامل ہیں.بعض صورتوں میں ماں شریک بہن بھائیوں کے معاملے میں عورت اور مرد کا حصہ یکساں رکھا گیا ہے.وراثت کے ضمن میں تیسری اہم بات یہ ہے کہ اگر عورت کو باپ کی میراث میں سے دو کی بجاۓ ایک حصہ ملتا ہے، تو شوہر کی جانب سے اسے مہر بھی تو ملتا ہے . جس کے مقابلے میں اس کے بہن بھائی یا شوہر ایسا حق نہیں رکھتے( اسلام میں عورت کی استثنائی حیثیت اور اس کی وجوہ- شریعہ اکادمی ،فیصل مسجد اسلام آباد)
عباسی دور خلافت کا ایک دلچسپ واقعہ .
عورت کو  رشتہ کے اعتبار سےجائیداد میں  وارث تصور کیا گیا ہے . اس ضمن میں علماۓ اسلام اور عالم اسلام سے تعلق رکھنے والے فرمانرواه بھی بخوبی  واقف  تھے اور  حصوں کی تقسیم بھی جانتے تھے(اگرچہ یہ واقعہ حجت نہیں) . ایک خلیفہ کی بیدار مغزی کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ پڑھیے.
عباسی فرمانروا .خلیفہ مامون(١٩٨ہ تا يييي٢١٨ہ = ع٨١٣ تا ٨٢٣ِ ع )-عبدالله ابو العباس مامون ١٨ ربیع الاول ١٧٠ہ میں رات کے وقت پیدا ہوا. مامون کی والدہ ایک کنیز تھی اس کا نام مراجل تھا. مامون غیر معمولی ذہین انسان تھا اور بڑی تیزی سے بات کی تہہ کو پہنچ جاتا تھا، ایک بار اس کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اس وقت وہ علماء کی مجلس میں بیٹھا تھا. عورت نے کہا کہ امیرالمومنین ! میرے بھائی کا ا نتقا ل ہو گیا اور اس نے چھ سو دینار چھوڑے،اس میں سے مجھے صرف ایک  دینار ملا ہے، مامون نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا ٹھیک ہے، یہی تیرا حق تھا علماء نے پوچھا.امیرالمومنین آپ نے کس طرح معلوم کیا؟ مامون نے عورت کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا. اس آدمی نے دو بیٹیاں چھوڑیں؟ عورت نے جواب دیا ہاں، مامون نے کہا دو تہائی ان کا ہو گیا یعنی چار سو دینار، ایک والدہ چھوڑی؟ اس نے اثبات میں جواب دیا.مامون نے کہا چھٹا حصہ اس کا ہو گیا،یعنی سو دینار. بیوی چھوڑی؟ عورت نے اقرار کیا.مامون نے  کہا کہ  آٹھواں حصہ اس کا ہو گیا یعنی ٧٥ دینار.پھر پوچھا کہ کیا تیرے بارہ(١٢) بھائی ہیں،عورت نے اثبات میں جواب دیا. مامون نے کہا دو دو دینار ان کے ہو گئے اور تیرے حصے کا صرف ایک دینار رہ گیا.(مسلمانوں کی سیاسی تاریخ جلد دوم از ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن -مترجم علیم اللہ صدیقی-ص-١١١ -مجلس ترقی ادب لاہور-طباعت دوم اپریل ٢٠١٠ )
 مزید وضاحت .
تربیت اولاد کے بارے میں قرآن حکیم میں ہمیں اجمالی طور پر احکام ملتے ہیں ،جن کی تفسیر احادیث سے ہوتی ہے .احادیث کی تمام کتابوں میں اولاد کی تربیت اور اس کی اہمیت کے بارے میں ہمیں دو قسم کے احکام ملتے ہیں .ایک قسم تو وہ ہے جس میں بیٹے اور بیٹی دونوں کی تربیت اور پرورش کے بارے میں فرمایا گیا ہے جس سے مساوات مرد و زن کی تائید ہوتی ہے ، لیکن اسلامی شریعت کے تحت معا شرتی نظام میں عورت بحثیت بیٹی، بیٹے کے مقابلے میں نہ صرف برابر ہے بلکہ اس کا رتبہ بیٹے سے کہیں بڑھ کر ہے - جس کی ایک جھلک اس حدیث مبارکہ میں ملتی ہے جس کی راوی امہات المومنین میں سے حضرت عائشہ(رض) ہیں. اور ماں کا رتبہ یہ ہے کہ اس کے قدموں تلے جنت کہی گئی ہے اور احادیث میں اگرچہ باپ کے رتبے کو نظر انداز نہیں کیا لیکن باپ سے بڑھ کر ماں کے رتبے کی اہمت بتائی گئی ہے.

"جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کی ذمہ داری ڈالی گئی اور اس نے اس ذمہ داری کو نبھایا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی"حضرت انس(رض) کے حوالے سے ایک اور حدیث میں ہے جس میں جنت میں داخلہ کی ضمانت دی گئی ہے." جو شخص دو لڑکیوں کا بار ا ٹھا ئے اور ان کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں تو وہ شخص اور میں(رسول اللہ-ص) قیامت کے دن اس طرح ساتھ ہونگے " حضرت انس(رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے ہاتھ کی انگلیوں کو بالکل ملا رکھا تھا. ایک اور حدیث میں بیٹیوں کے ساتھ بہنوں کو بھی شریک کیا گیا ہے.-- خوش قسمتی سے یہ تینوں احادیث لڑکیوں اور بہنوں کی پرورش کو زریعہ نجات قرار دیتی ہیں .
 (أیضا)
اسلامی معاشرے میں عورت کو جو تحفظات ہیں وہ علماۓ اسلام نے بیان کئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اسے بڑی ہی نرم و نازک اور لطیف دنیا کا تصور دیا ہے . اس کو مردوں کی نظروں سے بچانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو یہاں تک حکم دیا کہ جہاد میں دشمن سے جنگ کرتے وقت بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے سے باز رہیں ،---گواہی میں اور سفر میں محرم کی سہولتیں، عبادت میں چھوٹ ،نکاح کے وقت ولی کی سہولت دیں گئی ہیں اگرچہ یورپ والے اور مغرب زدہ اسے دنیا میں معاشرتی فساد پھیلانے کی غرض سے ان سہولیات کو جبر وغیرہ کے طور پر پیش کرتے ہیں  ، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں .
ڈاکٹر شام لکھتے ہیں کہ" کہ آج کرہ ارض کے بہت بڑے حصے میں عورت کے ساتھ ایک اور بڑا ظلم یہ ہو رہا ہے کہ اسے بڑی خوبصورت اصطلاحات ،تراکیب اور سبز باغ کے پردے میں فطرت سے ہٹا کر ان کاموں پر بڑی خوبصورتی سے لگا دیا گیا ہے، جو خالصتا مردوں کے لیے ہیں. اسلام عورت کو محنت و مشقت اور کام کاج سے منع نہیں کرتا. احادیث سے ثابت ہے کہ چکی پیستے پیستے حضرت فاطمہ(رض) کے ہاتھوں میں گھٹے پڑ جایا کرتے تھے. لیکن اسلام اس بات کی بھی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتا کہ وہ بس چلانے جیسے پر مشقت کام اس لیے کریں کہ انہیں معاشی ذلتوں کو کم کرنا ہے، جیسا کہ  یورپین ممالک میں ہوتا ہے. اسلام اسے شوہر کی جانب سے سونے چاندی کے زیورات مہیا کرنے کی ضمانت دیتا ہے، لیکن کسی فرم کے مختار کل کی پرائیویٹ سیکریٹری بن کر اس کی دلبستگی کا سامان فراہم کرنے کی بجاۓ عورت کو شوہر کی توجہ کا مرکز بناتا ہے .اسلام قطعی طور پر منع نہیں کرتا کہ عورت نرسنگ جیسا مقدس پیشہ اختیار نہ کرے لیکن اسلام یہ اجازت بھی نہیں دیتا کہ وہ ہسپتال میں مرد نا محرموں کا علاج کرتی پھرے اور بستر پر لباس تبدیل کرنے میں ان کی معاونت کرے. کسی کنبے کے پاس بے شمار مال و دولت ہو، اس کے پاس ذاتی طیارے ہوں اور اس کے مرد اس قابل ہوں کہ  وہ اپنے خاندان کی عورتوں کو طیارہ اڑانے کی تربیت دے سکیں تو اسلام اس سے قطعا منع نہیں کرتا لیکن محض مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے شوق میں عورت طیارہ اڑانا اسلام کو پسند نہیں. ( ڈاکٹر شہزاد اقبال شام- "اسلام میں عورت کی استثنائی حیثیت اور اس کی وجوہ" شریعہ اکادمی ، بین الاقوامی اسلامی یونیوڑسٹی اسلام آباد )
اس دور میں عورت کو بالغ ہونے پر گھر،شوہر اور بچوں جیسی نعمت مہیا کرنے کے بجاے ہوٹلوں اور طیاروں میں خدمتگار بنا ڈالا گیاہے - گھروں سے نکال کر دفتروں میں لا بٹھایا گیا جس کے ذمہ دار مرد ہیں جو عورت سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے - ضرورت کے تحت عورتوں کو کام کرنے کی ممانعت نہیں ہے ،جس کی تفصیل آگے چل کر ہم پیش کریں گے.عورتوں کے کام کرنے کے بارے میں اور عورت کی "آزادی" کے مدعی ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ اگر عورتوں کو کام نہ کرنے دیا جاےٴ تو ملک کی نصف آبادی بیکار رہتی ہے جو معاشی اصولوں کے منافی ہے اور وسائل کا بہت بڑا ضیاع ہے .یہ دلیل دو اعتبار سے بالکل اور مطلقا غلط ہے. پہلی بات یہ ہے کہ اولا تو ملک کی مرد آبادی کو روزگار کے مکمل مواقع فراہم کیے جائیں تا وقتیکہ ایک بالغ مرد بھی بے کار باقی نہ رہے. کیونکہ مرد پورے کنبے کا کفیل ہوتا ہے. عورت پر کسی قسم کی کفالت کی ذمہ داری نہیں ہے. آج کل شہری آبادی اور زندگی پر نظر دوڑایے.عورتوں کی بہت کم تعداد کسی معاشی جبر کے نتیجے میں ملازمت کرتی ہے ورنہ بلعموم بلند معیار زندگی اور دوسری باتیں پیش نظر رہتی ہیں . اس کے علاوہ جن عورتوں کی بروقت شادیاں نہ ہوں وہ بیکاری سے بچنے کے لیے ملازمت اختیار کر کے بالعموم تاحیات بے کار رہتی ہیں. مردوں کے بر سرروزگار ہونے سے عورتوں میں بلاوجہ کام کرنے کا رجحان کم ہو جاتا ہے.
اس طرح تمام مرد آبادی کے برسررو زگار ہو جانے پر اگر ایسی عورتیں بچ جاتی ہیں جو صرف فراغت کے لمحات کو کام میں لانا چا ہیں تو ان کو بھی مناسب روزگار دیا جا سکتا ہے. ساتھ ہی ساتھ ان پیشوں میں بھی عورتوں کو کام کے مواقع فراہم کی جا سکتے ہیں جہاں محض عورتوں کی ضرورت ہو (جس کے لیے شریعت میں اجازت ہے-تفصیل آگے آئے گی) جیسے عورتوں کی تعلیم ،لباس،علاج معالجے سے متعلق پیشے اور خدمات-رہی ان آسودہ حال خاندانوں کی عورتیں جو شوہر کے بر سر روزگار ہوتے ہوئے اس لیے کام کرنا چاہتی ہوں کہ ان کا معیار زندگی بلند ہو اور وہ ہر سال بے مقصد خریداری اور سیرو تفریح کے لیے دساور کو جاسکیں تو یہ بے شمار نو جوانوں کو پڑھا لکھا کر بے روزگار رکھنے کے مترادف ہے جو ڈاکہ زنی کی طرف مائل کرنے کے لیے ایک قدم ہے. ایک ہی ملک میں ایک خاندان آسودگی کی حدوں کو بھی پھاند ڈالے اور اسی دیوار سے متصل گھر میں رہنے والا ایک پڑھا لکھا نوجوان بے روزگار ہو. مرد بے روزگار ہوں تو عورتوں کو کام پر لگانا بعید از عقل ہے.-ڈاکٹر شام مثال دے کر اس میں افافہ کرتے ہیں کہ " دوسر ی بات یہ ہے کہ عورتوں کو کام پر لگانے والوں کے ذہن میں کام کا تصور خالصتا معاشی تصورات سے لتھڑا ہوا ہے. جس طرح کسی عمارت کے باہر ایک چوکیدار، چوکیداری کر رہا ہوں تو طبیعات کے علما کے نزدیک وہ کوئی کام نہیں کر رہا. جب کہ علماۓ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ وہ کام پر ہے. اسی طرح عورت کے معاملے میں بھی عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت ،گھر کی نگرانی،گھر کے کام کاج، اعزہ و اقارب سے میل ملاقات، خاندان میں رشتے ناطے وغیرہ طے کرانا، شادی بیاہ کے معمالات میں دوسروں کی مدد کرنا،شوہر کی ضروریات کا خیال رکھنا، گھر کا انتظام،یہ گویا کام کاج نہیں ہیں. اس نا معقول خیال کی وجہ یہ ہے کہ ایسا سوچنے والوں کے تصورات میں کام کے معنی وہی ہیں جو مادیت پرستی کے تصور سے پھوٹتے ہیں اور جس کے بدلے میں ھر ماہ کی پہلی تاریخ کو کچھ نوٹ مل جائیں . حالانکہ عورت جو فرائض گھر پر رہ کر سر انجام دیتی ہے وہ سب کام کی تعریف میں آتے ہیں ان کے نتائج یقیناً مہینے بعد اجرت کی صورت میں سامنے نہیں آتے بلکہ یہ سب کام معاشرے کو اپنے محور پر رکھتے ہیں، انہی کی وجہ سے اسلامی معاشرہ متوازن رہتا ہے جس کی اپنی ایک قدر و قیمت ہے.
(أیضا)
جن عورت کو عندالضرور کام کرنا ہوتا ہے انکے لیے شریعت اسلامیہ تحفظ کی ضمانت دیتی ہے - وہ جگہیں  جہاں صرف عورتوں کی ضرورت ہے وہاں عورتوں ہی کو کام کرنا چاہیے . معاشرے میں ایسی عورتوں کے لیے مشکلات کھڑی نہیں کرنی چاہے اور نہ ہی انکو کوئی نقصان پہنچانا چاہے ، جو لوگ اس کے خلاف ہیں یہ انکی ذاتی راۓ ہے اس کااسلام سے کوئی تعلق نہ ہے ،ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ شریعت اسلامیہ کا مطالعہ کسی تعمیری سوچ والے استاد کے زریعہ سے کریں جو" مقاصد شریعت" سے بخوبی واقف ہو.
سہ ماہی فکرونظر اپریل -جون ١٩٩٥ شمارہ -٤ - ادارہ تحقیقات اسلامی کے ایک مضمون "مسلمان عورت اور کسب معاش" سے ہم یہاں کچھ حوالہ جات پیش کرتے ہیں تاکہ زیر بحث موضو ع پر زیادہ معلوماتی بات ہو سکے ." قرآن و حدیث کی تعلیمات سے اگرچہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام عورت کی اصل اور زیادہ تر توجہ گھریلو امور و معاملات کی طرف رکھنے کی ہدایت کرتا ہے تاکہ وہ (عورت) ان کو سدھارنے اور بہتر بنانے کی پوری سعی و کوشش  کرے. تاہم وہ بوقت ضرورت ایسے فرائض میں بھی حصہ لے سکتی ہے جو اجتماعی امور و معاملات سے تعلق رکھتے ہوں .مسلمان عورت اسلامی حجاب کی پابندی کے ساتھ کسب معاش کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتی ہے.ہر میدان عمل،خواہ وہ محکمہ تعلیم ہو،صحت کے امور سے متعلق ہو یا کارخانہ وفیکٹری کی ملازمت ہو، اگر خواتین کو تحفظ حاصل ہو،تو اسلام ان  کے زریعہ روزگار پر کوئی قدغن عائد نہیں کرتا."
بلکہ اسلامی معاشرے اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ عورت کو  ایسے میں تحفظ فراہم کرے جو اس کا حق ہے -- عورتوں کے لیے میں سمجھتا ہوں گھریلو دستکاری ، کاٹیج انڈسٹری ، انکم جینریٹنگ، گھریلو زراعت، گھریلو ڈیری فارمنگ وغیرہ  منصوبے بہت اچھے ثابت ہو سکتے ہیں ،لیکن بدقسمتی سے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا گیا .
حضرت عمر (رض) مشہور صحابیہ حضرت شفا بنت عبدالله عدویہ کو بازار سے متعلق بعض ذمہ داریاں سونپا کرتے تھے، حدیث طیبہ کے الفاظ ہیں"(حضرت شفا ہجرت سے پہلے اسلام لا چکی تھیں، وہ ابتدائی مہاجرین میں سے تھیں- انہوں نے نبی کریم (ص)سے بیعت بھی کی تھی وہ عقل و فہم اور فضیلت والی عورتوں میں سے تھیں... حضرت عمر(رض) انکو راۓ اور مشورہ میں ترجیح دیتے،ان کی راۓ اور رضامندی لیتے اور انکو فضیلت دیتے. اور بازار کے امور سپرد کرتے تھے)اس روایت سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ امور جو عورتوں کے متعلقہ ہوں وہ عورتوں کو دیے جا سکتے ہیں ،اسلام میں کوئی قدغن نہیں ہے .گھریلو ذمہ داریوں کی انجام دیہی اور مردوں کے ساتھ مل کر امور کی انجام دیہی کے مظاہر تو آج بھی کثرت کے ساتھ ہمارے معاشرے میں دکھائی دیتے ہیں . کھیتی باڑی کے کاموں میں مرد اکیلا سارے کام سر انجام نہیں دے سکتا تو عورتیں بڑی خوشی سے انکا ہاتھ بٹاتی ہیں اور مناسب خوشحالی انکا مقدر ہوتی ہے ،اسی طرح برتن سازی اور  دوسرے کاموں میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اور وہاں انکی ضرورت بھی ہوتی ہے . پڑھی لکھی خواتین بچوں کو گھر پر ٹیوشن پڑھا کر اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہیں یہاں بھی انکی اشد ضرورت ہے.
اسلامی روایت کی روشنی میں اگر دیکھیں تو حضرت اسماء بنت ابی بکر اور حضرت جابر کی خالہ(رض) کا بلترتیب لکڑیوں کو جنگل سے لانا اور فروخت کرنا اور اپنے کھجور کے درختوں کی دیکھ بھال، بنیاد فراہم کرتا ہے.
فکرونظر میں مضمون نگار لکھتی ہیں،" جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ ضرورت کہ تحت اسلام کسب معاش کی صرف اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ بعض سخت شرائط میں نرمی بھی پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے درج زیل حدیث کو بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے .حضرت جابر بن عبدالله کہتے ہیں کہ: میری خالہ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی.(طلاق کے بعد ان کو عدت کے ایام گھر میں ہی گزارنے چاہیں تھے) لیکن انہوں نے(عدت کے دوران ہی) اپنے کھجور کے چند پیڑ کاٹنے(اور فروخت کرنے) کا ارادہ کیا تو ایک صاحب نے سختی سے منع کیا( کہ اس مدت میں گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے) یہ حضور اکرم(ص) کی خدمات اقدس میں استفسارکے لیے گئیں تو آپ(ﷺ) نے جواب دیا"کھیت میں جاؤ ،اور اپنے کھجور کے درخت کاٹو(اور فروخت کرو) اس رقم سے بہت ممکن ہے تم صدقه یا اور کوئی بھلائی کا کام کر سکو(اس طرح یہ تمہارے لیے اجر آخرت کا سبب ہو گا) ایک دوسری روایت میں ہے .حضرت سہل کا بیان ہے کہ ہم میں سے ایک عورت تھی جمعہ کے دن وہ چقندر کی جڑیں نکال کر انہیں ہنڈیا میں ڈال کر پکاتی تھی اور اس پر مٹھی بھر جو کا آٹا پیس کا ڈا ل دیتی تھی. گویا چقندر کی جڑیں اس میں بوٹیوں کا کام دیتی تھیں. ہم ہر جمعہ کو نماز کے بعد اس کو سلام کرتے، وہ یہ کھانا ہمارے سامنے لاتی اور ہم چٹ کر جاتے. ہمیں اس کھانے کی وجہ سے جمعہ کے دن کا بہت خیال رہتا تھا."-- فکرونظر از مسز شہزاد کوثر چیمہ .

Stay Connected To Get Free Updates!

Subscribe via Email

Follow us!

0 comments:

Post a Comment