سود "ربا" کی تعبیرات (5)۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: چوہدری طالب حسین
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں
ہم سود/ربا کی تعبیرات، جو صدر اسلام اور اس سے پہلے لی جاتی تھیں ،اس کے بارہ میں کچھ پوسٹس لکھا رہے ہیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ موجود روایت کی روشنی میں ربا کی تعریف "صدرے اسلام "کیا تھی؟ اس ضمن میں حضرت علی کا دور مبارک یہاں بیان کیا جا رہا ہے اور جو روایات اس کے متعلقه ہیں وہ لی ہیں . اگرچہ یہ روایت مکمل نہیں ہیں لیکن اخذ نتیجہ کے لیے روشنی فراہم ضرور کرتی ہیں . ١. تجارت سے متعلق احکام شرعیہ کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے.جو شخص تجارت کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا حضرت علی رضی اللہ عنہ اسے ایسا کرنے سے پہلے اس پر تجارت سے متعلق احکام شرعیہ کی تعلیم حاصل کرنا لازم کر دیتے تھے. ایک شخص آپ کے پاس آکر عرض کرنے لگا" امیرالمومنین میں تجارت کرنا چاہتا ہوں، میری کامیابی کے لیے اللہ سے دعا کیجیے" آپ نے اس سے پوچھا" کیا تم نے اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کر لی ہے؟" وہ کہنے لگا،" اچھا کیا یہ بھی تجارت کا ایک حصہ ہے؟" آپ نے جواب میں فرمایا" ارے بیوقوف،پہلے دین کی سمجھ, پھر تجارت! جس شخص نے خریدو فروخت کی اور اس میں اللہ کے دین سے رہنمائی حاصل نہ کی تو وہ سود کے کیچڑ میں پھنسا کہ پھنسا.(مسند زید(رض) جلد سوم-ص-٤٣٣-فقہ حضرت علی -رض-ص،١٦٨)
٢.قیمت کا معلوم و متعین ہونا ضروری ہے تاکہ بعد میں تنازعہ کی کوئی صورت نہ رہے. حضرت علی نے بیع غرر(ایسا سودا جس میں مبیع یا ثمن نہ معلوم ہونے کی وجہ سے دھوکے کی گنجائش ہو ) سے منع فرمایا ہے.(مصنف ابن ابی شیبہ ١٣٢/٢).
٣.ربا القرآن یا ربا
٣.ایک چیز کو اس کی ہم جنس چیز کے بدلے فروخت کرنا.
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ سونے کو سونے کے بدلے،چاندی کو چاندی کے بدلے،گندم کو گندم کے بدلے،جو کو جو کے بدلے خرما کوخرما کے بدلے اور نمک کو نمک کے بدلے جب کہ مقداروں میں کمی بیشی ہو فروخت کرنا جائز نہیں خواہ یہ لین دین نقد اور دست بدست ہو، اسی طرح اگر مقداریں برابرہوں لیکن سودا ادھار ہو اور فوری ادائیگی نہ ہو تو بھی جائز نہیں. اور جو شخص درج بالا صورتوں میں سے کسی صورت کو اختیار کرتے ہویے سودا فروخت کرے گا وہ سود خوری میں مبتلا ہو گا اور اس کی یہ فروخت حرام ہو کر فسخ ہو جاۓ گی(عبدالرزاق١٠٩/٦ )یہ اصول نبی کریم (ص) کی حدیث مبارکہ سے اخذ کیا گیا ہے .اس بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تر کھجوروں کو خشک کھجوروں (خرما) کے بدلے فروخت کرنا نا پسند کیا ہے اور فرمایا ہے کہ خشک ہو کر کم ہو جائیں گی (المجوع ٣٥/١٠ ) ایک شخص نے آپ سے دو درہموں کے بدلے ایک درہم فروخت کرنے کے متعلق مسلہء پوچھا تو آپ نے فرمایا کے یہ تو فوری سود ہے(مسند زید ٥٥٨/٣) ہمدان کے ایک شخص نے آپ سے پوچھا -"امیرالمومنین ، میرے پاس چاندی کے دو سکے ہیں جو چل نہیں رہے،میں ا ن سکوں کو چاندی کی کم وبیش مقدارسے بھنا نہ لوں؟" آپ نے جواب دیا کہ یہ فوری سود ہے. پھر فرمایا " اگر تم میں سے کسی کے پاس چاندی کے سکے ہوں جو چلتے نہ ہوں تو ان کے بدلے میں سونا خرید لے -اور پھر سونے کے بدلے میں جو چاہے خرید لے." لیکن جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے، حضرت علی (رض)نے اس قاعدے کو ہر ماپ تول والی چیز کے لیے عام کر دیا ہے. آپ ماپ تول والی کسی بھی چیز کو اس کی ہم جنس چیز کے بدلے کمی بیشی کر کے دست بدست فروخت کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے، اسی طرح مساوی مقدار کی دو ہم جنس چیزوں کی خریدوفروخت ادھار کی صورت میں جائز نہیں قرار دیتے تھے . اگر کوئی شخص اس قسم کی خریدوفروخت کرتا تو حضرت علی کے نزدیک سود لینے دینے کا مرتکب ہوتا، لیکن اگر وہ چیز ماپ تول کے زمرے میں آتی اور اسے اس کی ہم جنس چیز کے بدلے فروخت کیا جاتا تو آپ سے ایک روایت کے مطابق اس میں تفاضل( مقداروں میں کمی بیشی ) اور نسیئہ(ادھار) دونوں جائز ہوتے. حسن بن محمدبن علی (رض) سے روایت ہے کہ حضرت علی نے ایک اونٹ جس کا نام عصیفیر تھا بیس اونٹوں کے بدلے میں ادھار فروخت کیا()آپ کاقول ہے "کپڑوں کا ایک جوڑا دو جوڑوں کے بدلے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں" دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے سودے میں تفاضل کوتو جائز قرار دیا لیکن ادھارکو حرام قرار دیا.سعید بن المسیب (رح)نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے ادھار فروخت کرنے کو ناپسند کیا شائد حضرت علی سے پہلی روایت سب سے صحیح روایت ہے .(فقہ حضرت علی-رض-)
اگر ایک چیز دوسری جنس کی چیز کے ساتھ اس طرح ملائی جاۓ کہ دوسری چیز پہلی پر غالب آ جاۓ تو حضرت علی ایسی چیز کو اس کی جنس سے خراج سمجھتے اور اس صورت میں مقداروں میں کمی بیشی کے ساتھ اس چیز کی بیع اپنی ہم جنس چیز کے بدلے میں جائز ہو جاتی. مغیرہ (رض ) بن حنیں سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی ایک دن خطبہ دے رہے تھے کہ دوران خطبہ ایک شخص آکر آپ سے کہنے لگا کہ امیرالمومنین ہمارے علاقے میں کچھ لوگ سود کھاتے ہیں، آپ نے پوچھا"وہ کس طرح؟ اس نے حواب دیا کہ یہ لوگ سونے چاندی کی ملاوٹ سے بنے ہویے پیالوں کو چاندی کے سکوں کے بدلے فروخت کرتے ہیں، آپ نے یہ سن کر سر جھکا لیا اور پھر فرمایا کہ"نہیں" یعنی اس میں کوئی حرج نہیں() ہم نے جو یہ کہا کہ"حضرت علی اس چیز کو اس کی جنس سے خارج سمجھتے تھے"اور یہ نہیں کہا-جیسا کہ بہت سے فقہاء کہتے ہیں- کہ آپ دو مختلف جنسوں کی مخلوط چیز کو جب اس کی ہم جنس چیز کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا جائز قرار دیتے تو ایسی صورت میں بکنے والی چیز اپنی ہم جنس چیز کے ساتھ مقدار میں مساوی ہو جاتی. اور اس کا باقیماندہ حصہ دوسری چیز کے باقیماندہ حصے کے بالمقابل ہو جاتا، اس لیے کہ ایسی صورت میں یہ شرط لگانی پڑتی کہ ثمن(یعنی دینار یا درہم)بکنے والی چیز میں پائی جانے والی سونے اور چاندی سے مقدار میں زیادہ ہو. حالانکہ حضرت علی ایسی صورت میں یہ شرط نہیں لگاتے تھے. آپ نے عمرو(رض) بن حریت کے ہاتھوں سونے سے بنی ہوئی دھاریوں والی زرہ چار ہزار درہم میں ادھار --بیت المال سے وظائف ملنے کی مدت تک کے لیے--فروخت کی تھی،اور اس زمانے میں وظائف ملنے کی مدت مقرر ہوتی تھی.() ایک روایت میں ہے کہ عمرو بن حریت نے حضرت علی سے چار ہزار درہم میں ایک ریشمی کپڑا خریدا، اس نے پھر اسے جلا دی یعنی چمکا دیا، اور اس سے بیس ہزار درہم حاصل کیے- ان دو مثالوں سے یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت علی کے نزدیک ایسے سودوں میں ثمن یعنی دینار و درہم کا سونے اور چاندی کی اس مقدار سے زیادہ ضروری نہیں جو بکنے والی چیز میں پائی جاۓ.(فقہ حضرت علی -رض- ١٧٥/١ -ادارہ معارف اسلامی لاہور. مترجم مولنا عبدالقیوم)
بیع سلم وہ بیع ہے جس میں قیمت کی ادائیگی فوری ہوتی ہے اور فروخت شدہ چیز کی حوالگی مؤخر ہوتی ہے،اور یہ فروخت کندہ کے ذمہ ہوتی ہے.
بیع سلم کی شرطیں: بیع سلم کے انعقاد کی لیے تین شرطیں ہیں .
١) بکنے والی چیز کی ایسی وضاحت جس سے وہ پوری طرح ضبط میں آجاۓ اور اس کے بعد کس قسم کا کوئی تنازعہ پیدا ہونے کی گنجائش باقی نہ رہے. اسی بنا پر حیوان کے بیع سلم کے بارے میں حضرت علی سے مختلف رواتیں منقول ہیں.(مسند زید ٥١٩/٣ ) ایک رویت میں ہے کہ آپ اس کے جواز کے قائل ہیں. دوسری روایت میں عدم جواز ہے. اس لیے کہ حیوان کے اوصاف کوالفاظ کے ذریعے منضبط کرنا مشکل ہے.
٢)ثمن کی وضاحت اور اس کی فوری ادائیگی: اس لیے کہ بیع سلم کو مشروع کرنے کی غایت یہی ہے کہ ضرورت مند کی مالی ضرورت کو فوری طور پر پورا کیا جاۓ.
٣) فروخت شدہ چیز کی حوالگی کی مدت کا تعین: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے" نا معلوم مدت کے لیے بیع درست نہیں ہے(مسند زید جلد سوم -ص-٥١٩)
بائع کا فروخت شدہ چیز کی حوالگی میں ناکام رہنا:
جب فروخت کندہ فروخت شدہ چیز خریدار کے حوالہ کرنے میں ناکام رہے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہو گا. یا تو وہ انتظار کرے یہاں تک کہ فروخت کندہ فروخت شدہ چیز کو اس کے حوالہ کرنے میں کامیاب ہو جاۓ -اور یا اپنا پیسہ بغیر کسی کمی بیشی کے واپس لے لے . حضرت علی نے فرمایا " جس شخص نے خوردنی شے میں ایک مقررہ مدت تک حوالگی شرط پر سودا کیا اور رقم ادا کر دی،لیکن اسے وہ شے اس شخص کے پاس نہ ملی اور اس شخص نے یہ پیشکش کی کہ کوئی اور خوردنی شے آج کے بھاؤ پر لے لو تو اس کے لیے سوائے اس پہلی خوردنی شے کے اور کوئی چیز لینا درست نہیں ہو گا اور یا پھر وہ اپنی دی ہوئی قیمت واپس لے لے. اس کے لیے اس مقررہ نوعیت کے طعام کے سوا اور نوعیت کا طعام لینا درست نہیں ہے(مسند زید جلد سوم-ص-٦١٣بحوالہ فقہ حضرت علی-ص ١٧٧)
آرا امام زید (رض)
امام ز ید(رض) فرماتے ہیں : جانوروں میں بیع سلم جائز نہیں ہے. سامان میں بھی جائز نہیں ہے جانوروں کی کھالوں میں بھی جائز نہیں ہے، البتہ اون،روئی،ریشم اور ہر وہ چیز جسے ماپا جا سکتا ہے یا وزن کیا جا سکتا ہے جو لوگوں کے پاس ملتی ہے اس میں بیع سلم کرنا جائز ہے (مسند الامام زید- شببر برادرز لاہور )اس کے لئے مختلف آرائیں فقہ کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں .
حضرت علی کے بارے میں یہ بات منقول ہے، وہ بیع سلم میں رہن اور کفیل کو مکروہ قرار دیتے ہیں(حوالہ بالا ) وہ اس لیے کہ اس سے لوگوں کو تنگی ہوتی ہے.
قرض دینے کی فضیلت
حضرت علی(رض) فرماتے ہیں،نبی کریم(ص) نے ارشاد فرمایا ہے، جو شخص قرض دے گا اسے اس کی مانند صدقه کرنے کا اجر ملے گا. جب اگلا دن ہوا تو نبی اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا: جو شخص قرض دے گا اسے روزانہ اس کی مانند دوگنا صدقه دینے کا اجر ملے گا.
حضرت علی(رض) بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! کل تو آپ(ص) نے یہ فرمایا تھا کہ جو شخص قرض دے گا اسے اس کی مانند صدقه کرنے کا اجر ملے گا،اور آج آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے،جو شخص قرض دے گا اس کو اس قرض کی مانند دوگنا صدقه دینے کی مانند روزانہ اجر ملے گا. نبی اکرم(ص) نے فرمایا،ہاں جو شخص قرض دے اور اس کی مخصوص مدت کے بعد مزید سہولت دے تو اسے روزانہ دوگنا صدقه کرنے کی مانند اجر ملے گا.(مسند الامام زید-شبیر برادرز لاہور. ٢٠٤/١)
مزارعہ اور معاملہ:
حضرت علی بیان کرتے ہیں، نبی اکرم (ص) نے ایک تہائی یا ایک چوتھائی (پیداوار بطور کرایہ )کے عوض میں زمیں دینے سے منع کیا ہے. آپ نے ارشاد فرمایا ہے، جب کسی کے پاس زمیں ہو تو وہ خود اس میں کھیتی باڑی کرے یا اسے اپنے بھائی کو(کسی معاوضے کے بغیر) دیدے . اس کے نتیجے میں بہت سی زمینیں معطل ہو گئیں. لوگوں نے اس بارے میں نبی کریم(ص ) سے گزارش کی کہ آپ اس بارے میں انہیں رخصت فرما دیں تو نبی اکرم(ص) نے انہیں رخصت دیدی (حوالہ بالا-ص-٣٠٦ ).....
حضرت علی -رض-سے منسوب ربا الفضل کے متعلق ہمیں روایت ملتی ہیں مگر رباآلقران کے بارے میں واضح روایات نہیں ملتی. اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس بارہ میں آپکے قریب کوئی ابہام نہیں تھا. یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شاذ تو یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی کسی کو بغیر کسی زیادتی کے قرض دے دے ،لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ لازمی دے ، جیسا کے اوپر بیان کردہ روایت سے ظاہر ہے کے نبی کریم-ص- کا فرمان مبارک تھا " جب کسی کے پاس زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی باڑی کرے یا اسے اپنے بھائی کو(کسی معاوضے کے بغیر) دیدے . اس کے نتیجے میں بہت سی زمینیں معطل ہو گئیں. لوگوں نے اس بارے میں نبی کریم(ص ) سے گزارش کی کہ آپ اس بارے میں انہیں رخصت فرما دیں تو نبی اکرم(ص) نے انہیں رخصت دیدی "---کیا اس بارہ میں کوئی روایت ہے کہ آپ نے یہ بھی رخصت دے دی ہو کہ " ضرورت مند زیادتی/ربا کے ساتھ قرض لے سکتا ہے"؟---ایسی روایت کوئی نہیں ملی ---لیکن یہ بات واضح ہے کہ حضرت علی -رض-سے منسوب روایت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے کہ " ربا القرآن"کی تعریف عربوں میں طلوع اسلام کے وقت کیا تھی. ؟
0 comments:
Post a Comment