سود "ربا" کی تعبیرات (1)۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: چوہدری طالب حسین
دور جہالت -صدر اسلام میں "ربا" کی تحقیق (١)
طلوع اسلام کے وقت عربوں کے رُسوم و
رواجات اور عادات کواسلامی شریعت میں "تشریعی مادہ" تصور کر لیا گیا مگر
مفاسد کو دور بھی کیا گیا.اس لیے اسلامی شریعت کو سمجھنے سے پہلے وہاں کے
کلی نظام کو پس منظر کے طور پر اپنے سامنے رکھ لینا ناگزیر ہے. بعض لوگوں
کا خیال ہے جب شریعت اسلامیہ ہے تو اس پس منظر سے کیا مطلب ؟ یہ تصور درست
نہیں اور اپنے مقصود تک پہنچنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے. عراق،یمن و شام میں رسول کریم(ص) کے اعلان نبوت کے وقت جو حالات تھے وہ بھی مدنظر رکھنے ہوتے ہے. لیکن ہم نے سہولت کی خاطر نیز طوالت سے بچنے کے لیے حجاز کے تین اہم مقامات--طائف،مکہ اور مدینہ کا ذکر ضروری سمجھا ہے ،کیونکہ ہمیں نے ان کے معاشی نظام میں ربا یعنی سود کا عمل دخل اور اس کا مفہوم دیکھنا ہے .
طائف
طائف میں زراعت و تجارت اور صنعت و حرفت ترقی یافتہ تھی ،دیگر پیشوں کے علاوہ طِب کا پیشہ بھی تھا حرث بن کلدہ الثقفی کاتعلق وہیں سے تھا .طائف میں انگور کی کثرت تھی ،یہی وجہ ہے کہ طائف میں باضابطہ شراب خانے بنے ہوتے تھے،یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عصری شراب خانوں کی طرح طائف کے ان شراب خانوں کی جانب سے عیاشیوں کے لیے عورتیں بھی فراہم کی جاتی تھیں.
سودی کاروبار
مورخ بلاذری لکھتا ہے .کے "طائف کے لوگ (بلا کے) سود خوار تھے (فتوح البلدان)قبلہ ثقیف کے بعض لوگوں نے تو سودی کاروبار کو اپنا پیشہ ہی بنا لیا تھا. ان کا کاروبارصرف طائف تک محدود نہ تھا. بلکہ مکہ والوں کو بھی سودی قرض دیا کرتے تھے.اور بالعموم سود بشکل زر و اشیا وصول کرتے تھے. چنانچہ"ثقیف کے لوگ جاہلیت میں بنو مغیرہ(قریش مکہ کی ایک شاخ) کو قرض دیا کرتے تھے. جب مدت ادائیگی پہنچتی تو وہ (بنو مغیرہ) کہتے کہ ہم مزید سود دیں گے. تم ہمیں مزید مہلت دے دو.(تفسیر طبری الجزالربع--آیت-لا تا کلو الربواضعافا-الخ -بروایت ابن جریح -بحوالہ اسلام کے معاشی نظریے از ڈاکٹر محمّد یوسف الدین )
سودی کاروبار کا طریقہ :- جاہلیت میں ثقیف کے سود لینے کا یہ طریقہ تھا کہ یہ لوگ کسی شخص کو کسی مدت تک کے لیے قرض دیتے تھے،جب قرض کی ادائیگی کا وقت آتا تو قرض خواہ مقروض سے کہتا کہ یا تو میری رقم ادا کرو دو یا اس میں زیادتی قبول کرو. اگر مقروض کے پاس مال ہوتا تو وہ ادا کردیتا ورنہ زیادتی کو قبول کر کے ایک سال کی اور مہلت لے لیتا. چنانچہ اگر ایک سال کی عمر والی اونٹنی واجب الادا ہوتی تو دوسرے سال دو سال عمر والی اونٹنی مقروض پر واجب الادا ہوتی پھر تیسرے سال تین سال عمر والی اونٹنی طلب کرتا . اگر اس کے بعد نہ دیتا تو چار سالہ اونٹ طلب کرتا. غرض افزائش زیادتی کا یہ سلسلہ مہلتوں کی زیادتی کے ساتھ ساتھ یوں ہی بڑھتا رہتا تھا.
زر میں بھی یہی طریقہ مروج تھا.یعنی مقروض مدت مقررہ پر رقم ادا نہ کر سکتا تو دوسرے سال دوگنی رقم وصول کرتا. چنانچہ اگر سو ١٠٠ واجب الادہ ہوتے تو دوسرے سال دو سو٢٠٠ کی رقم مقروض پر واجب ا لادا ہو جاتی تھی،پھر بھی ادا نہ کرتا تو تیسرے سال چارسو ٤٠٠. غرض یوں ہی ہر سال کی مہلت سود کےاضافے کی وجہ بنتی جاتی تھی.(حوالہ بالا)
نبی کریم (ص)نے طائف کے باشندون سے جو معاہدہ کیا تھا، اس میں سود نہ لینے کے متعلق بھی معاہدہ کی دستاویز میں تذکرہ تھا. بلاذری کے مطابق "سود اور شراب سے انکو خصوصیت کے ساتھ روکنے کا سبب یہ تھا کہ یہ لوگ بلا کے سود خوار تھے. بلاذری نے تو نہیں،البتہ ان کے استاد ابو عبید قاسم بن سلام المتوفی ٢٢٤ نے اپنی کتاب"کتاب الاموال" میں معاہدہ کے پورے متن کو بھی نقل کیا ہے،سود سے متعلق دستاویز کے یہ الفاظ ہیں .
وما کان لھم فی الناس من دین فلیس علیھم الا راسہ( لوگوں کے ذمہ ان کا جو قرض واجب الوصول ہے،اس میں سے ان کو (ثقفیوں کو) صرف رس المال(اصل کپیٹل ) ملے گا.(کتاب الاموال- پیرا ١٩٢)
مکّہ :- مکہ کے قُرب و جوار میں زراعت نہیں ہو سکتی تھی جنگلات بھی نہیں تھے معدنیات بھی نہیں تھے. اس لیے وہاں خام پیدوار کی ہمیشہ سے کمی تھی. اس کا اثر وہاں کی صنعت اور حرفت پر بھی مضر پڑا . چنانچہ خام پیدوار نہ ہونے سے صنعت و حرفت نے وہاں ترقی نہیں کی. صرف دو ایک صنعتیں وجود میں آئیں،خاص کر دباغت کیونکہ اونٹ اور بکریوں کی کھالیں وہاں بہ آسانی فراہم ہو سکتی تھیں .خدا تعالیٰ نے بھی مکہ کی زمیں کو" وادی غیر ذی زرع -بن کھیتی والی زمیں ، سے موسوم کیا ہے.اسی لیے مکہ کے بڑے لوگ تجارت کے لیے دو سفر کرتے تھے اور اپنے شہر والوں کے لیے ضروریات زندگی کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے لے کر آتے تھے.اور ان سفروں سے نفع کماتے تھے .
سودی کاروبار :- ملک شام کو کاروانوں کی روانگی کا وقت آتا تو دینار کی طلب بڑھ جاتی .مکہ کے تاجر موجودہ زمانے کے ساہوکاروں سے کچھ مختلف نہ تھے . وہ اولاً تو سکہ کی ہی تجارت کرتے ،موقع دیکھ کر وہ اپنے سرمایہ کو کاروبار میں لگاتے. اس طرح وہ بڑ ے بڑ ے کاروانوں کے کاروباروں اور تاجروں کے لیے سرمایہ فراہم کرتے نیز جنھیں کاروبار شروع کرنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہوتی تھی. ان کے لیے بھی رقومات فراہم کرتے .
مکہ ہنڈی گھر اور بنک کاری کا شہر تھا .اس لیے مکہ میں اس قسم کے کاروبار قائم ہونے سے اسی قسم کے رسم و رواج اور ادارے نمودار ہوتے ،جو اس قسم کے کاروبار سے ظہور میں آئے ہیں. بعض وقت یہ ربوا یا سود تھا جو اپنی تمام برائیوں کا حامل تھا. دینار کے بدلے دینار،درہم کے بدلنے درہم یعنی صد فی صد ١٠٠/١٠٠ سود لیا جاتا تھا . جب قرآن نے اس کو حرام قرار دیا تو قریش نے حجت پیش کی کہ یہ بھی تو ایک تجارت ہے .دیکھنے اصل آیت " قالو اانما البیع مثل الربوا -الخ... وہ کہتے ہیں کہ سود تو تجارت کے جیسا ہی ہے،جہاں اصل کو کرایے پر چلایا جاتا ہے.(انسائیکلو پیڈیا آف اسلام عنوان مکہ بحوالہ اسلام کے معاشی نظر یے )
سودی لین دین کا طریقہ :-جاہلی عرب مدت معینہ کے لیے قرض دیتے، چنانچہ جب قرض کی ادائی کا زمانہ آتا تو قرض خواہ مقروض سے قرض یا سود کا مطالبہ کرتا. اب اگر وہ قرض ادا نہیں کر سکتا تو اس پر قرض کو دوگنا کر دیا جاتا.مثلاّ اگر ایک سال کی اونٹنی ہوتی تو اس کو دو سال کی اور اگر ایک پیمانہ غلہ ہوتا تو اس کو دو پیمانہ کر دیا جاتاتھا.( تاریخ تشریع السلامی لعلامتہ-محمّد خضری)
زمانہ جاہلیت میں کچھ مدت کے لیے ایک شخص کا کچھ مال دوسرے پر واجب الادا ہوتا جب ادائیگی کا زمانہ پہنچتا تو قرض خواہ دریافت کرتا کہ آیا تو مال ادا کرتا ہے یا سود دیتا ہے؟ پس اگر وہ ادا کر دیتا تو اس کو لے لیتا ورنہ بصورت دیگر مدت بڑھا کر زیادتی طلب کرتا.(تفسیر طبری ،محولہ بالا،آیت مذکورہ لا تا کلوا الربوا-الخ- ) مورخ طبری نے اپنی تفسیر میں مزید تفصیل سے زمانہ جاہلیت کے سودی لیں دین کے طریقے کو بیان کیا ہے. یہ بالکل وہی طریقے ہیں جو طائف کے ذیل میں بیان ہو چکے ہیں.
ربوا کی دو قسمیں ہیں
(١) ربوا لنسیہ (ادھار)
(٢) ربوالفضل(نقد).
ربوا النسیہ (ادھار) جو جاہلیت میں مشہور اور رائج تھا یہ تھا کہ لوگوں کو مال دیتے اور ہر مہینہ کچھ مقررہ سود لیتے اور راس المال(اصل) طلب کرتے. اگر ادائیگی میں لیت و لعل کی جاتی تو رقم اور مدت میں اضافہ کر دیتے ،اور اس کو ربوا کہتے تھے .اور ربوا نقد یہ تھا کہ شے کو شے کے بدلے مثلاّ گیہوں کو گیہوں کے بدلے یا جو کو جو کے بدلے نفع کے ساتھ فروخت کرتے.(تفسیر طبری -حوالہ بالاسلام کے معاشی نظریے -جلد-١-ذیل سودی لیں دین کا طریقہ -مکہ )
سود کس بات کا معاوضہ تھا.:-عرب کے معمولات ،عادات اور احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو لوگ ادائی قرض کی استطاعت نہیں رکھتے تھے .ان کے لیے قرض کی جو مدت مقرر کی جاتی تھی،سود اسی مدت انتظار کا معاوضہ تھا.(محمّد الخضری کتاب مذکورہ)چنانچہ بیہقی کی روایت سے پتہ چلتا ہے کی"کسی شخص کا کسی پر قرض ہوتا. مقروض قرض خواہ سے کہتا کہ میں تجھے اتنا زیادہ دوں گا تو مجھے مہلت دے(السنن الکبریٰ -ابواب الربوا -کتاب البیوع- اسلام کے معاشی نظریے )
زمانہ جاہلیت میں کچھ مدت کے لیے ایک شخص کا کچھ مال دوسرے پر واجب الادا ہوتا،جب ادائیگی کا زمانہ آ پہنچتا تو قرض خواہ دریافت کرتا کہ آیا تو ادا کرتا ہے یا سود دیتا ہے؟ پس اگر وہ ادا کر دیتا تو اس کو لے لیتا ورنہ بصورت دیگر مدت بڑھا کر زیادتی طلب کرتا.(السنن الکبریٰ)مورخ طبری لکھتے ہیں کہ" کسی شخص پر کسی کا مال ایک مدت تک کے لیے رہتا،جب مدت ادائیگی آ پہنچتی تو قرض خواہ مقروض سے مال طلب کرتا. مقروض کہتا کے تیرے قرض کو ادا کرنے کی مہلت بڑھا دے میں تیرے مال پر زیادتی کرونگا. وہ دونوں ایسا ہی کرتے اور یہی سود در سود تھا.
جس ربوا سے خدا نے منع کیا وہ یہ تھا کہ کسی شخص پر کسی کا سود ہوتا تھا وہ کہتا کہ میں تجھے اتنا اتنا دونگا تو مجھے مہلت دے تو وہ مہلت دے دیتا.(تفسیر طبری الجزا الربع -ص ٥٥ -آیت - لا تا کلو ا الربوا اضعافا -الخ-بحوالہ اسلام کے معاشی نظریے حوالہ بالا)
المختصر ایک فریق انتظار کرتا اور مدت ادائیگی میں توسیع دے دیتا اور دوسرا فریق اس انتظار کشی کے معاوضے میں مال واجب الادا میں زیادتی کر دیتا." مدت ادائیگی میں مقروض قرض خواہ کو کہتا کہ مدت میں توسیع دیدے، میں مال میں اضافہ کر دونگا( تفسیر خازن)---ماسوا اس کے جاہلیت کے ساہوکار(جیسا کہ آجکل بھی ہندوستان میں ہوتا ہے)قرض دیتے وقت ابتداء سے سود مقرر کرتے تھے. وہ اپنا پیسہ دوسروں کو اس شرط پر قرض دیتے تھے کہ ہر مہینے میں مقدار معین(سود) لیں گے اور اصل رقم جوں کی توں برقرار رہے گی پھر جب میعاد قرض گزر جاتی تو قرض خواہ مقروضوں سے اپنی اصل رقم کا مطالبہ کرتے. اگر اس وقت قرضہ ادا نہ کر سکتے تو قرض خواہ اپنے حق میں اضافہ اور مدت میں توسیع کر دیتے. الغرض زمانہ جاہلیت میں لوگ جس سود کا آپس میں کاروبار کرتے تھے وہ یہی سود تھا (تفسیر کبیر رازی-اسلام کے معاشی نظریے )
سود کا کاروبار زمانہ جاہلیت میں بھی حرام اور اس سے ملنے والی سودی رقم بھی ناپاک سمجھی جاتی تھی ،کیونکہ ابو وھب نے کہا تھا کہ کعبہ کی تعمیر میں صرف اپنی پاک کمائی لگا نا ،کسی کَسبی کا بھاڑا،سود کا روپیہ ،ظلم کر کے حاصل کیا ہوا روپیہ نا لگانا .(تاریخ طبری-اسلام کے معاشی نظریے )
مکہ کے مالدار اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ دولت سے مزید دولت پیدا کی جا سکتی ہے. --زَر اور سِکوں میں درہم و دینار (چاندی اور سونے کے سکے، سلاخیں اور ڈھیلے ) استعمال کرتے تھے. جاہلیت میں اہل مکہ کے پاس ہرقل کے دینار بھی آتے تھے.اور ایرانیوں کے دراہم بغلیہ بھی ،عرب ان سکوں سے وزن کے اعتبار سے تول کر خرید و فروخت کرتے تھے.اہل فارس کے نظم و نسق بگڑنے سے ان کے سکّے بھی کھوٹے ہو گے تھے مگر کھوٹ نظر انداز ہونے کی وجہ سے معاملات لین دین میں کھرے کے مساوی چلتے تھے.
تاریخی اندراجات سے پتہ چلتاہے کہ کارو بار میں لگے ایک دینار کےبدلے ایک دینار(نفع) لیا جاتا تھا مورخ لکھتا ہے کہ جنگ بدر والے ابو سفیان اور قریش کے قافلے میں شریک لوگوں کا مال فروخت ہو کر سونا جمع ہوا اور ان کو اصل سرمایہ دے دیا گیا اور نفع نکال لیا گیا (کاروبار میں نفع نکالنے کا) معمول یہ تھا کہ ایک دینار پر ایک دینار(نفع) لیتے تھے (طبقات ابن سعد-اسلام کے معاشی نظریے-جلد-١- ص-٦٨ -ذکر ابوسفیان کا قافلہ جنگ بدر والا )
سودی کاروبار مدینہ میں:- یہودی سرمایہ دار مدینہ کی آبادی میں بسے ہوتے تھے،اور مدنی کسانوں کو قرض دیا کرتے تھے. مدنیے میں سود کا بہت رواج تھا. چانچہ عید بن ابی بروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ"جب میں مدینہ گیا تو عبداللہ بن سلام سے ملاـــــــ انہوں نے کہا تم ایک ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں سود کا بہت رواج ہے.(بخاری-مناقب عبدالله بن سلام)
مکے اور طائف میں سودی کاروبار کا جو طریقہ رائج تھا ،مدینے میں بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا." جاہلیت میں سود اس اس طور پر ہوتا تھا کہ ایک شخص کا قرض میعادی دوسرے پر ہوتا تھا. جب معیاد گزر جاتی تو قرض خواہ قرضدار سے کہتا کہ یا تو تو میرا قرض ادا کر یا سود ادا کر. اس نے قرض ادا کیا تو بہتر نہیں تو قرض خواہ اپنا قرض بڑھا دیتا اور پھر مدت میں توسیع دیدیتا(مو طا امام مالک ).
امام مالک (المتوفی ١٧٩ھ) عموما مدینہ اور اہل مدینہ کے ہی رواجات اور واقعات خاص طور پر قلمبند کرتے تھے. اس لیے اغلب ہے کہ مذکورہ بالا طریقہ مدینہ سے ہی متعلق ہو.
رہن کے طریقے :- عموماّ جب کوئی شخص مدینہ میں کسی سے کچھ شے ادھار لیتا تو رقم کے ادا ہونے تک اپنی کوئی چیز ساہوکار کے ہاں رہن کروا دیتا تھا، چانچہ" حضرت عائشہ(رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم(ﷺ) نے ایک مدت کے وعدہ پر کچھ غلہ ایک یہودی سے مول لیا تھا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی کرا دی تھی .بعض حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ مدینہ میں اسلام سے پہلے بیوی بچے بھی رہن کرے جا سکتے تھے -
امانت:- مدنی لوگ امانت میں خیانت کو بہت برا گردانتے تھے.(اسلام کے معاشی نظریے --از-- محمّد یوسف الدین .ایم .اے،پی -ایچ -ڈی(عثمانیہ)-صفحہ -٩٦-٩٧ -الائیڈ بک کمپنی - جامعہ کراچی پاکستان)
لغات القرآن -دار الاشاعت-کراچی -صفحہ ٤٨ پر ہے. باجماع امت "ربا" دو قسم کا ہے -ایک حسی جس کو کتاب اللہ نے "لاتاکلو الربوا ا اضعا مضاعفہ--الخ "میں بیان فرمایا ہے ،اور حدیث صحیح الفضل ربا " میں اسی حسی ربا کو بیان کیا گیا ہے،اور حدیث ....... ا لا مثلا بمثل-الخ(بروایت مسلم) اور حدیث لاتاخذوا الدینار بالدینارین و لا درھم بلدرھمین ... الخ(طبرانی عن ابن عمر)بھی بحق ربا کتاب اللہ کی تفسیر ہے اور تفسیر اضعافا کے تحت داخل ہے . حدیث بخاری بھی ربا حسی کی مفسر ہے "الذھب بالزھب مثلاّ بمثل والورق بالورق مثلاّ بمثل (رواہ البخاری)" یعنی فضل ربا ہے. پس اس حسی ربا میں شارع نے لغوی معنی میں اور شرعی معنی میں مغایرت پیدا نہیں فرمائی ہے پس حسی ربا کی بھی وھی تعریف ہے جس کی عربی عبارت یہ ہے " هوالفضل الخالی عن العوض البشرط فی ا لبیع..الخ"(لغات القرآن-دار الاشاعت-ص-٤٨)
دوسرا ربا حکمی ہے کہ حسا تفضل عوضین میں نہیں ہے لیکن شارع نے سد الباب الربا صورت تماثل کو بھی ربا حسی کے حکم میں قرار دے دیا ہے جبکہ معاوضہ یدابید نہ ہو کیونکہ مادہ ربا کا تاخیر و تاجیل ہے اور بغیر تاخیر کے فضل غیر متعامل ہے، اسی معنی پر محمول ہے،حدیث مسلم کی" لا ربا فیما کان یدا بید " فضل حسی کا دروازہ اسی ربا حکمی سے مفتوح ہے کہ تجارت حاضرہ میں فضل حسی عادتا نہ ممکن ہے،اسی ربا حکمی کو شارع نے حدیث- نہی النبی (ص)عن بیع دینار اور حدیث الذھب بالورق ربا لاھاء ولاءھا ، الحدث فی الاشیاء الستہ المنصوص ، ---( اگر سمجھ نہ آئے تو احادث کا اصل متن دیکھیں، انہیں یہاں صرف اشارہ سمجھیں ) میں بیان فرمایا ہے اس ربا شرعی پر لغوی ربا صادق نہیں ہے.
ایام جاہلیت میں ربا کا جس طور معمول تھا اس کے مطلق امام مالک،زید بن اسلم سے جو مشہور
تابعی ہیں، ناقل ہیں کہ انہوں نے بیان کیا جاہلیت میں،ربا یہ تھا کہ ایک شخص کا دوسرے شخص کے ذمہ ایک مدت میعنہ کے لیے حق(واجب الادا) ہوتا پس جب مدت پوری ہو چکتی تو کہتا کہ تو ادا کرتا ہے یا زیادہ کرتا ہے، اب اگر وہ ادا کر دیتا تو اس کو لے لیتا ورنہ اپنا حق زیادہ کر دیتا اور مہلت میں تاخیر کر دیتا.
امام طبری نے عطا اور مجاہدسے اسی کے قریب قریب روایت کیا ہے نیز قتادہ سے نقل کیا ہے کہ جاہلیت میں ربا کا یہ دستور تھا کہ ایک شخص مدت معینہ پر سودا بیچتا ،جب مدت پوری ہو جاتی اور خریدار کے پاس ادا کرنے کیلئےکچھ نہ ہوتا تو یہ رقم زیادہ کر دیتا اور مدت کو موخر کر دیتا. (جاری ہے)
اس کے ساتھ یہ بھی پڑھیے ....تتمہ (١)براۓ سابقہ پوسٹ -سود"ربا" کی تعبیرات -١.
ReplyDelete