از چودھری طالب حسین.
عدالتی فیصلوں کے قانونی اور شرعی مآخذ کے حوالے
سے،سعودی عرب کی عدالتوں میں دائر کسی بھی مقدمے کے فیصلے کا ماخذ حنبلی
مذہب کا وہ قول قرار پاۓ گا جس کے مطابق اس مسلک میں فتویٰ دیا جاتا
ہے.(عدالتی فیصلوں میں انہی قوانین اور ہدایات پر انحصار کیا جاۓ گا جن کا
صدور سربراہ مملکت کی طرف سے وقتا فوقتا ہوتا رہتا ہے. لیکن اگر کسی
معاملےمیں کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے تو اس میں محکمہ قضا کی جنرل باڈی
کی حکم مجریہ زیر نمبر ٣،مورخہ ٧.١.١٣٤٧ ھ پر عمل درآمد کیا جاۓ گا. اس
حکم کی توثیق شاہی فرمان مورخہ ٢٤.٣.١٣٤٧ ھ سے ہو چکی ہے.) یا اگر
قاضی محسوس کرے کہ اس میں حنبلی مسلک کے مطابق عمل کرنے میں زیادہ دشواری
پائی جاتی ہے یا وہ مصلحت عامہ کے مطابق نہیں ہے، تو وہ یہ دیکھے گا اس
مسلے میں دوسرے مذاہب کا کیا حکم ہے، پھر جس مذہب کا حکم بھی مصلحت عامہ کے
قریب تر ہو گا اس کے مطابق فیصلہ کیا جاۓ . امام احمد بن حنبل(رح) کے مسلک
کے مطابق مسائل کا حکم معلوم کرنے کے لیے عدالتیں مندرجہ ذیل کتابوں سے
رجوع کریں گی.
١.شرح المنتہی .
٢.شرح الاقناع.
بعض معاملات اور
علاقوں میں دوسرے مسالک میں موجود احکام کے مطابق بھی فیصلہ دیا جاتا ہے.
لیکن سعودی علماء تدوین فقہ اسلامی کو نا پسند کرتے ہیں. یہ مختصر سا مضمون
اسی سلسلہ میں ہے .
-تقنین-- اسلامی احکام کی ضابطہ بندی -
تقنین کا مفہوم .تقنین سے مراد یہ ہے کہ اسلامی احکام کو دفعہ وار ضابطہ بندی ،تبویب اور ترتیب کے تحت یکجا کر دیا جاۓ اور عدالتوں کو اس امر کا پابند بنا دیا جاۓ کہ وہ ان ضابطہ بند احکام کے مطابق ہی معاملات کے فیصلے کریں.
شریعت اسلامی کی تقنین یا ضابطہ بندی دور جدید کا اہم مسلہ ہے جس پر کم و بیش گزشتہ ڈیڑھ سوسال سے زائد عرصہ سے گفتگو جاری ہے . ایک گروہ کا کہنا ہے کہ جب تک اسلامی شریعت کے احکام کو مغربی قوانین کی طرح ضابطہ بند یعنی -codified-نہیں کیا جاتا اس وقت تک شریعت کا نفاز اور احکام شریعت کے مطابق معاملات کو فیصل کرنے کا عمل بطریق احسن تکمیل پذیر نہیں ہو سکے گا. دوسری طرف اہل علم کی ایک قابل ذکر تعداد کا کہنا ہے کہ تقنین کا عمل نہ صرف شریعت اسلامیہ کے مزاج اور روح کے خلاف ہے بلکہ مسلمانوں کی طویل قانونی روایت بھی اس اسلوب سے مانوس نہیں. بہرحال تقنین کے حامیوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ اور عدم تقنین کے حامیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے.
تقنین کی مثال :
سلطنت عثمانیہ میں تقنیں----- فقہ اسلامی کی تاریخ میں -مجلہ الاحکام العدلیہ-پہلا مدون-codified-قانون ہے ، اگرچہ فقہ اسلامی کی یہ انتہائی اہم دستاویز ہے ،لیکن دوسری طرف یہ بھی بڑی حقیقت ہے کہ مجلہ میں اس طرح کی تقنین نہیں ہے جس طرح کی تقنین دنیاۓ مغرب میں ہوتی رہی اور جس کے آج بہت سے لوگ داعی ہیں. مجلہ سلطنت عثمانیہ کے سول کوڈ کے طور پر اس وقت تک نافذ العمل رہا جب تک سلطنت عثمانیہ قائم رہی. مصطفیٰ کمال نے ترکی میں اقتدار حاصل کیا تو جہاں اور بہت سے اسلامی قوانین اور ادارے ایک ایک کر کے ختم کر دیے گئے. مجلہ کو بھی منسوخ کر دیا گیا اور اس کی جگہ نپولین کا سول کوڈ ترکی میں ترجمہ کر کے جوں کا توں نافذ کر دیا گیا. لیکن سلطنت عثمانیہ کے وہ علاقے جو پہلی جنگ عظیم کے دوران ترکوں کی ہاتھ سے نکل گئے تھے،جن پر مغربی طاقتوں خاص طور پر انگلستان اور فرانس نے قبضہ کر لیا تھا، وہاں مجلہ بعد میں بھی کسی نہ کسی حد تک نافذ العمل رہا. چنانچہ عراق ،شام،اردن ،فلسطین اور تونس میں مجلہ ایک سول کوڈ کے طور پر سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد بھی نافذ العمل رہا. پھر جیسے جیسے دنیاۓ اسلام میں مغربی اثرات بڑھتے گئے ،مجلہ کو منسوخ کیا جاتا رہا. شام،عراق ،تونس اور دوسرے علاقوں میں ایک ایک کر کے مجلہ منسوخ کر دیا گیا. البتہ دو ممالک ایسے تھے جہاں مجلہ ایک طویل عرصے تک نافذالعمل رہا. جہاں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں تھی فلسطین میں اسرائیل حکومت نے طویل عرصے تک مجلے کے نفاز میں کوئی رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی. اردن میں مجلہ کے احکام ١٩٧٤ تک نافذ العمل رہے.اس کے علاوہ زمانی لحاظ سے مجلہ سے پہلے، بہت ہی شہرت یافتہ فتاویٰ ہندیہ-اورنگ زیب عالمگیر (م١٧٠٧ ) جس کی تیاری میں علمائے ہند کے کمیشن کے علاوہ عالمگیر نے خودحصہ لیا تھا،اور انشورنس یا سوکرہ کی تقنین بھی قابل ذکر ہیں، علماء نے سیکورٹی کو معرب کر کے "سوکرہ" کہا . یہ اصطلاح ابن عابدین شامی (م١٢٥٢-ھ-رح)کے ہاں ملتی ہے . علامہ ابن عابدین -رح-وہ پہلے قابل ذکر فقیہ ہیں جن کے بارے میں بلا خوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے فقہ الاقلیات کے بیج بوئے اور ایک ایسا فقہی رجحان پیدا کیا جو آگے چل کر فقہ الاقلیات کی بنیاد بن سکتا ہے.سعودی عرب میں عدم تقنین کا تجربہ :
سعودی عرب کے علماء کرام نے تدوین کو ناپسندیدہ قرار دیا اور جب ١٩٢٤-٢٥ میں مملکت سعودی عربیہ کا قیام عمل میں آیا تو ان کے اس مشورہ یا رائے کے نتیجہ میں یہ طے کیا گیا کہ اسلامی احکام و قوانین کو غیر مرتب ہی رہنے دیا جاۓ اور جس طرح سے انگلستان میں کامن لاء نافذ ہوتا ہے،کم و بیش اسی طرح سے اسلامی شریعت کو بدستور نافذ العمل رکھا جاۓ .مگر سعودی عرب کے علماء کی یہ کاوش ایک خاص حد سے زیادہ کامیاب نہیں ہوئی.بہت جلد حکومت سعودی عرب کو بہت سے ایسے نئے نئے معاملات و حقائق کا سامنا کرنا پڑا جن کے لیے نئے قانونی احکام درکار تھے . جب انہوں نے تیل کی دولت کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سامنے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا اور دنیا کی بعض بڑی بڑی تیل کمپنیوں کو ٹھیکے دیے تو ان کو بہت سے نئے مسائل سے واسطہ پڑا. تو ایسے معاملات کے لیےبھی قانون سازی کی ضرورت تھی . ان تیل کمپنیوں نے بہت سے ایسے مطالبات کیے جن کا جواب سعودی عرب میں روایتی علماء اور فقہاء کے پاس نہیں تھا. ان کو کم و بیش ویسی ہی صورت حال سے واسطہ پڑا جس طرح قبل اس کے سلطنت عثمانیہ کو واسطہ پڑا تھا اور جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مجلہ کی تدوین کی ضرورت پیش آئی تھی . مگر سعودی عرب کی علماء اور فقہاء نے یہ طے کر دیا تھا کہ فقہ اسلامی مدون اور ضابطہ بند نہیں ہو گی. وہ ہر قسم کی ضابطہ بندی کے مخالف تھے اور کسی بھی نام پر کسی بھی قانون کی تدوین کو شریعت کے احکام سے متعارض سمجتھے تھے .سعودی عرب میں "نظام" کا تجربہ :
عصر حاضر میں پیش آمدہ نئے مسائل کا جواب فقہ حنبلی میں صراحت سے نہیں ملتا تھا. اس کی وجہ ظاہر تھی . قدیم حنبلی فقہاء کو وہ مسائل ہی درپیش نہیں تھے . ان سوالات کے جواب کے لیے نصوص شریعت اور فقہ اسلامی کے عمومی قوائد کی روشنی میں نئے اجتہاد کی ضرورت تھی جس کے لیے سعودی علماء شاید ذہنی اور فکری طور پر تیار نہ تھے . ان حالات میں بردار ملک سعودی عرب میں ایک نیا تجربہ کیا گیا. وہ تجربہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ تھا اور آج تک خاصی حد تک کامیابی سے جاری ہے . وہ تجربہ یہ ہے کہ ان نئے معاملات کو جن کا تعلق بین الا اقوامی تجارت کے معاملات سے ہو، عام عدالتوں کے دائرۂ کار سے نکال دیا جاۓ اور ان کے لیے از سر نو نئے قوانین مرتب کر کے نافذ کیے جائیں. یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ یوں فقہ اسلامی کی بالادستی سے ان مسائل کو مستثنیٰ کر دیا گیا. ان نئے مسائل کے لیے نئے ضابطے تجویز ہوئے جن کا نام"نظام" رکھا گیا. اس لیے کہ "قانون" کے لفظ سے سعودی علماء متوحش تھے اور قانون بنانے یا قانون سازی کو شریعت کی بالادستی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں سمجھتے تھے. آج بھی سعودی عرب کے روایتی علماء"قانون" کے لفظ کو نہایت نا ناپسند کرتے ہیں اور قانون سازی کے ہر کام یا تجویز کو شرک کے قریب قریب قرار دیتے ہیں. یہ "نظام " بعینہ وہ قوانین ہیں جو دوسرے عرب ممالک مثلاّ مصر ،عراق یا کویت میں نافذالعمل ہیں. ان میں ترتیب اور مندرجات کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے. یہ اسی طرح کے قوانین ہیں جیسے دنیا کے مختلف ممالک میں جاری ہیں. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ "نظام" کا یہ دائرۂ کار بین الاقوامی تجارت کی حدود سے نکلتا گیا اور نئے نئے موضو عات"نظام" کے دائرۂ میں شامل ہوتے گئے. اب اس کا دائرہ کار اتنا پھیل گیا ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ اب سعودی عرب کے بیشتر معاملات اور مسائل"نظام" کے تحت طے ہوتے ہیں. سعودی عرب میں اب فقہ حنبلی کے غیر مرتب اور غیر مدون احکام کا دائرۂ صرف شخصی قوانین اور عائلی قوانین اور کسی حد تک فوجداری قوانین تک محدود ہو گیا ہے. بقیہ سارے معاملات جن میں سعودی عرب کے انتظامی قوانین، وہاں کے اداروں کا داخلی نظم و ضبط ، حتیٰ کہ باہر سے آنے والے کارکنوں اور مزدوروں کے حقوق ،مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے درمیان زمہ داریوں کی تقسیم،ویزہ کے قوانین ،شہریت کے قوانین ،یہ سب چیزیں وہ ہیں جو"نظام" کی تحت طے ہو رہی ہیں."نظام" کی ترتیب و تیاری میں نہ علماء کرام کا حصہ ہے اور نہ کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود ہے کہ فقہ حنبلی یا شریعت اسلامیہ کے احکام کی روشنی میں اس"نظام" کے مناسب یا غیر مناسب ہونے کا جائزہ لیا جاۓ."نظام" کو شروع ھی سے عدالتوں اور علماء کے دائرۂ کار سے باہر رکھا گیا. شروع ھی میں یہ طے ہو گیا تھا کہ"نظام" پر عمل درآمد کے لیے عدالتوں کے بجاۓ نئے ادارے قائم کیے جائیں گی جن کو "مجلس" کا نام دیا گیا ہے. یہ مجلس بظاہر ایک کمیٹی ہے لیکن اس کو عملا وہ تمام عدالتی اختیارات حاصل ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی عدالت کو حاصل ہوتے ہیں جو تجارتی اور دوسرے قوانین کے مطابق معاملات کا فیصلہ کرتی ہیں. ابتداء میں ان مجلسوں کے روبرو وکلاء پیش نہیں ہوتے تھے. چونکہ سعودی علماء پیشہ وکالت کو اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں سمجھتے تھے اس لیے وہاں کا ماحول پیشہ وکالت کے زیادہ سازگار نہ تھا. بعد میں آہستہ آہستہ "مجلس" کے روبرو وکلاء کو پیش ہونے کی اجازت دے دی گئی. خواتین کو سعودی عرب میں وکالت کی اجازت نہیں تھی ، وہاں پہلی خاتوں وکیل نےحال ہی میں کام شروع کیا ہے.اب سعودی عرب میں دو متوازی نظام چل رہے ہیں. ایک متوازی نظام وہ ہے جو علمائے کرام کے ہاتھ میں ہے جو فقہ حنبلی کے مطابق عدالتوں میں معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں. ان کے ہاں جو مقدمات پیش ہوتے ہیں وہ اکثر و بیشتر شخصی اور عائلی قوانین یا فوجداری قوانین یا بعض وہ دیوانی احکام اور قوانین ہیں جو ابھی تک" نظام" کے دائرے میں نہیں آ سکے یا جن کے بارے میں "نظام" خاموش ہے. ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بعض معاملات میں"نظام" کے تحت فیصلہ کچھ ہوا اور شریعت کے تحت قاضی صاحبان کی عدالتوں نے یا علماء کرام پر مبنی عدالتوں نے کچھ اور فیصلہ کیا. کیا یہ تجربہ ایک مثالی اور معیاری تجربہ ہے یا اس تجربے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے؟ یہ اہم سوال اپنی جگہ باقی رہتا ہے.(تقنین-IIUI-سے استفادہ کیا گیا.)