ترجمہ: ہر نا اہل کا ہاتھ تجھے بیمار کر دے گا. ماں کے پاس آ تا کہ تیری خبر گیری کرے .
ہم قدامت پسندی کا دفاع نہیں کر رہے ،بس اس موضوع پر مختصر سا نقطہ نظر بیان کرنا مقصود ہے .
ڈاکٹر محمّد اجمل لکھتے ہیں. میں اپنی بات ایک ایسے بیان سے شروع کرتا ہوں جو خاصا فرسودہ مگر نہایت ضروری ہے. وہ بیان یہ ہے کہ نفسیات اور تعلیم کا کوئی ایسا منظم نقطہ نظر نہیں بنایا جا سکتا جس کا بنیادی مفروضہ متعین ما بعد الطبیعاتی وضع نہ رکھتا ہو. ہر نفسی طریق علاج اور طرز تعلیم ایک مابعد الطبیعاتی نقطہ نظر رکھتا ہے. اگرچہ جدید طریقیات اس کا حوالہ اس خوف سے نہیں دیتیں کہ کہیں ان پر قدامت پسندی کا الزام عایدنہ کر دیا جاۓ.میرا ایمان ہے کہ ما بعد الطبعیات کے بغیر چارہ نہیں. نفسیات دان،نفسی معالج اور ماہرین تعیلم کو،جہاں تک ممکن ہو،اپنا ما بعد الطبیعیاتی نقطہ نظر بھی واضح کرنا چاہے اور اپنے مفروضے بھی کھل کر بیان کرنے چاہیں .کرداریت کے مکتب فکر کے اہم رکن سکنر (Skinner)نے یہ نشاندہی بجا طور کی تھی کہ بعض مطلبی نفسیات دان تجربہ گاہوں سے خوفزدہ ہیں ،اس لیے قلیل حقائق اور بے حسّاب وجدان
کو اپنے نقطہ نظر کی بنیاد بناتے ہیں،لیکن ایک ایسا ہی افسوسناک رجحان اور بھی ہے اور وہ یہ کہ بیشمار نفسیات دان تجربہ گاہوں میں پناہ تلاش کرتے ہیں،کیونکہ وہ اس امر سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کا سامنا سچ مچ کسی فرد واحد یا انسانی گروہ سے نہ ہو جاۓ اور اس میں ان کی اپنی ذات بھی شمل ہوتی ہے. (نفسی طریقہ علاج میں مسلمانوں کا حصہ -از ڈاکٹر محمد اجمل -ترجمہ شہزاد احمد -ص-١٠ -ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور)
عموماّ یہ تلقین کی جاتی ہے کہ اچھی صحبت اختیار کرو کیونکہ بری صحبت کے بہت سے مفاسد ہیں. صوفیانہ ادارے میں کسی کامل سے بیعت کے عمل کو اختیار صحبت کی شروعات کہا جاتا ہے . دستگیر حقیقی تو فقط اللہ کی ذات ہے لیکن پیر طریقت کو اس ضمن میں شیخ کامل کے طور پر سمجھجاجاتا ہے.
ڈاکڑ محمّد اجمل لکھتے ہیں.
بیعت ایک علامتی بندھن ہے---اطاعت کا ایک عہد ہے جس کا مفھوم آفاقی ہی. اس کے معنی یہ ہیں کہ ملکوتی نور مرشد کے ذریعے سالک تک پہنچتا ہے،صرف شیخ ہی کی مدد سے شریعت اور طریقت کے اسرار کھلتے ہیں اور شریعت گہرا اور پختہ رنگ اختیار کرتی ہے.
صحبت مرداں اگر یک ساعت است --بہتر از صد خلوت و صد طاعت است.
(صحیح انسانوں کی صحبت اگر ایک لمحے کے لئے بھی نصیب ہو تو وہ ہزاروں تنہایوں اور عبادتوں سے بہتر ہے)
تمام سری (esteric) نظاموں میں یہ طریق مشترک ہے کہ جب دو انسانوں کے ہاتھ ملتے ہیں،تو یہ خود آگہی کی تحریک شروع ہونے کی ایک رمز ہے. تمام محبتوں میں بھی شائد ہاتھوں کا آپس میں ملنا عہد اور بندھن کی علامت سمجھا جاتا ہے.میرا خیال ہے کی اپنی نفسیاتی اہمیت کے باعث یہ مناسب اور لازم ہے. جدید زمانے میں،خصوصی طور پر،جب انسانوں کو بے شمار خواہشیں گھیرے رہتی ہیں،یہ اس بات کی علامت بن جاتا ہے کہ آپ اپنے اوپر حد مقرر کرنے اور خود کو فانی تصور کرنے کے لیے تیارہیں . اگر ایک بار آپ خود کو یوں محدود کر دیں اور اپنے آپ کو بیعت کے بندھن میں باندھ لیں ،تو اپنے فنا ہونے کا احساس خود آپ پر ظاہر ہونا شروع ہو جاے گا. چنانچہ بیعت،خیالات شر کا چکر توڑنے کی پہلی علامت ہے.(نفسی طریقہ علاج میں مسلمانوں کا حصہ). اس طرح مجلس شیخ کامل کی طرف توجہ مرکوز کروائی جاتی ہے تاکہ ایک ہی نقطہ کی طرف ارتکاز توجہ ہو جاۓ.
اس بات کو اس مثال سے سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ بھاپ سے چلنے والی چیزوں یا انجنوں کی بھاپ کو ایک ہے پوانٹ سے منظم طریقے سے گزارا جاتا ہے اور بہت سے طاقت حاصل کی جاتی ہے، یعنی ریل کا انجن اور راکٹ وغیرہ .
طبی اور سائنسی طریقہ علاج کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ، صوفی نفسی طریق علاج بھی ایک طرح کا نفسیاتی معالجہ Treatment ہی ہے جس کی بنیاد ایک ایسی مابعد الطبیات پر ہے جو ان معنوں میں اسلامی روایت پر مشتمل ہے جن معنوں میں روایت کا لفظ ایف شوان F. Schuon استعمال کرتے ہیں .روایت کا مطلب ماخذ origin اور مرکز دونوں ہی ہے. اسلامی روایت یہ بیان کرتی ہے کہ ہر روح کا ماخذ آرکی ٹائپ کی دنیا ہے . یہ ان قدیم ترین خیالات میں سے ایک ہے جو ہر روح کے اندر چھپا ہوا ہے . یہ اپنا اظہار کر سکتا ہے،مگر اس کے لئےمسلسل عبادت یا اسم اعظم کی تسبیح کرنا ضروری ہے، لہذا روح بھولے ہوئے اعتماد trust کو افشا کرتی ہے جو نمو پا کر شخصیت کا مرکز بن جاتا ہے. ایسا مرکز مخفی بھی ہوتا ہے اور ارفع بھی.اس ما بعد الطبیات کے پاس انسانی شخصیت کا ایک نظریہ موجود ہے،انسانی شخصیت اسلامی روایت کے حوالے سے، تین پہلو رکھتی ہے. یعنی الروح Spirit---القلب Heart --- اور النفس Soul
ٹائٹس بر ہارٹ Titus Burckhart کہتا ہے ، ان پہلووں میں امتیازات کی جا سکتے ہیں.
-چند اصطلاحات اور وضاحتیں .
نفس کے بارے میں یہ اصطلاحات ،نفس الحیوانیه ،کے علاوہ قرآن کریم سے اخذ کردہ ہیں .
١.النفس الحیوانیہ :حیوانی نفس---وہ نفس جو انفعالی سطح پر،فطری تحریکات کے تابع ہے.
٢.النفس الامارہ : حکم دینے والا نفس--- ایک جذباتی انا پسند نفس.
٣.النفس الوامہ.الزام دینے والا نفس--- وہ نفس جو اپنی کمیوں کے بارے میں آگاہی رکھتا ہے.
٤. النفس المطمنہ: سلامتی والا نفس--- وہ نفس جو روح کے ساتھ ہم آہنگ اور حالت یقین میں ہے.
صوفی بزرگوں نے فرمایا ہے ......کہ ، خیال پانچ مدارج سے گزرنے کے بعد فیصلہ (عزم) بنتا ہے. پہلا درجہ "حاجس" ہے. یہ وہ درجہ ہے جس میں خیال محض "خیال گزراں" ہے دوسرا درجہ خاطر ہے، اس درجے میں خیال کچھ دیر توقف کرتا ہے .تیسرا درجہ"حدیث النفس " ہے. یہ ایک باطنی مکالمہ ہے جو ایغو اپنے نفس کے ساتھ کرتا رہتاہے. چوتھا درجہ "ہم" ہے. یہ وہ درجہ ہے جس میں فیصلہ کرنے کے لیے آمادگی پیدا ہو جاتی ہے. پانچواں درجہ "عزم "ہے. یہ خود فیصلہ ہے. ذہنی بیماری کے نقطہ نظر سے تیسرا درجہ سب سے زیادہ دو ٹوک ہے. یہ ایک خود کلامی(Verbalization) ہے، اسے نیم نطقی(Sub-vocal) یا دھیمے لہجے کی گفتگو بھی کہا جاسکتا ہے جو انسان اپنے آپ سے کرتا رہتا ہے . اس سے ذہنی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں. یہ اندرونی بیانات عظیم درکاوی صوفی نے انہیں موج خیال (Thought Impulse) کہا ہے .
"موج خیال کے فریب سے ہوشیار رہو،وہ ارادوں کو کمزور کر دیتی ہے اور وہ خود جھوٹ ہوتی ہے"
رسول کریم(ص) سے ایک روایت ہے" اللہ نے میری امت کو وہ خیالات در گزر کر دیئے جن کے بارے میں وہ خود سےگفتگو کرتے ہیں،مگر شرط یہ ہے کہ وہ اس کا اظہار نہ کریں"
"دل میں بات ڈالنا "
کے معنی دینے والے مترادفات میں یہ الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہونے ہیں. وحی،الہام ،القا ،وسواس اور ھمزات ... ١.وحی ،الہام اور القا اللہ کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور شیطان کی طرف سے بھی جبکہ وسوسہ اور ہمز صرف شیطان کی طرف سے ہے.(القران ٤،٥/١١٤ اور ٩٧/٢٢).
٢.وحی کا تعلق تعلیم،عقائد ،احکام اور ابنائے غائب سے ہوتا ہے .الہام کا صرف کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے اور القاء کا صرف تعلیم سے ہے.
٣.وسوسہ .صرف برے خیالات کی دل میں آمد کو کہتے ہیں جبکہ ہمز میں برے خیال کے ساتھ شیطان کی طرف سے انگیخت بھی شامل ہوتی ہے.
٤. ہر وہ وحی،الہام یا القاء ،جو نصوص شرعیہ کے مطابق ہو وہ رحمانی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ شیطانی ہے.(مترادفات القرآن مکتبہ السلام لاہور ).
لیکن جو اوپر بیان کردہ " حدیث النفس ،ہم،اصطلاحات ہیں ،انکا مفھوم ان سے علیحدہ ہے . اراد،ھم،عزم،ابرم ،ام،تیمم ،اور تحری،ارادہ کرنا(قصد کرنا) کےلیے مترادفات القران ہیں. اراد-دل میں کسی بات کا خیال آنا. ھم. اس ارادے پر سوچ بچار کرنا . عزم.سوچ بچار کے بعد پختہ ارادہ بنا لینا. ابرم.عزم کی منصوبہ بندی کرنا . ام.ادھر ادھر توجہ کیے بغیر سیڑھ اپنی منزل کا قصد. تیمم .کسی شرعی حکم کی تعمیل کا ارادہ کرنا. تحری.خوب تر ارادہ کا قصد کرنا. (حوالہ بالا )
مولانا رومی اپنے کلام میں وحی اور الہام میں کوئی واضح فرق ظاہر نہیں کرتے.ترجمہ اشعار ---ان حواس خمسہ کے علاوہ اور حواس خمسہ ہیں...(وہ )سونے جیسے ہیں اور یہ تانبا ہیں ...دل کا آئینہ جب پاک صاف ہو جاتا ہے ...آب و خاک کے علاوہ وہ اور نقش دیکھتا ہے. پھر جان کا کان وحی کا محل ہو جاتا ہے ... وحی کیا ہے ؟ اسی پوشیدہ حس کی گفتگو . اس ادراک کو وحی کہیں یا الہام،یہ عقل سے بالاتر حس باطن کا انکشاف ہوتا ہے. چونکہ عوام وحی کو انبیاء کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں .لہذا صوفیاء اس قسم کے انکشافات کو وحی دل کہہ دیتے ہیں. رومی (رح) کا شعر ہے ازپے رو پوش عامہ در جہاں ---وحی دل گویند او ر اصوفیاں(دنیا میں عوام سے چھپانے کے لنے ----- اس کو صوفی دل کی وحی کہہ دیتے ہیں )
ڈاکٹر خلیفه عبد الحکیم "حکمت رومی" میں لکھتے ہیں.علمائےظاہر اس پر اصرار کرتے ہیں کہ وحی و الہام انسان کی روح سے خارج عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں. لیکن سوال یہ ہے کہ انسان جو عالم کبیر کا آئینہ ہے،اس کی روح سے خارج کیا ہے؟ خدا خود اپنا مقام انسانی روح کے اندر بناتا ہے .اگر الوہیت کا مقام انسان کی روح کے اندر بھی ہے تو حقیقت وحی اس کی روح سے خارج کیسے ہو سکتی ہے؟ کائنات میں ہر شے خدا کا مظہر ہے،اس لحاظ سے ہر جگہ خدا کا مقام ہے، لیکن وہ باطن جو ظاہر کا مصدر ہے، وہ عالم امر ہے اور روح از روئے قرآن عالم امر میں ہے. تمام حکمت جس کو خدا نے قرآن حکیم میں خیر کثیر کہا ہے، ظاہر سے باطن کی طرف سفر کرتی ہے .....یہاں تک کہ روح انسانی کے ڈانڈے روح الہی سے مل جاتے ہیں.
اتصالے بے تکیف بے قیاس --ہست رب الناس را با جان ناس ---طالب حکمت خود مصدر و منبع حکمت بن جاتا ہے اور یہی وحی و الہام کا مقام ہے... مولانا فرماتے ہیں.---طالب حکمت شو از مرد حکیم ------ تا از و گردی تو بینا و علیم (حکمت رومی ادرہ ثقافت اسلامیہ -لاہور)
امراض نفسانیہ ،قلبیہ کے متعلق دینی و دنیوی علماء نے کافی کچھ لکھا ہے ،اور قرآن حکیم میں بھی امراض کا وضاحت سے ذکر ملتا ہے ،جو بعد میں دیکھا جآئے گا. حضرت شیخ احمد سرہندی -رح- نے علل نفسانیہ اور امراض قلبیہ کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں.
امراض ذاتیہ اور امراض عارضیہ.
امراض ذاتیہ --- وہ ہیں کہ جو نفس کی وجہ سے وسواس کی صورت میں صادر ہوتی ہیں. ان امراض کو درونی اور ذاتی علتیں بھی کہا جاتا ہے.
امراض عارضیہ: وہ ہیں جو شیطان (یا شیطانی قوت) کی وساطت سے وسواس کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں انہیں بیرونی اور عارضی علتیں بھی کہا جاتا ہے.(البینات شرح مکتوب جلد سوم -ص-٢٦٤ -تنظیم الاسلام پبلیکشنز -گجرانوالہ پاکستان )
ڈاکٹر نصیر احمد ناصر لکھتے ہیں ،نفسیات انسانی پر تدبر کرنے سے اس بات کا سراغ ملتا ہے کہ تکمیل شخصیت کے کام میں جو چیز انسان کے لیے زبردست رکاوٹ کا موجب بن جاتی ہے، وہ اس کے احساسات و مدرکات کا تضاد و تخالف ہے اور جب یہ رکاوٹ دور ہو جاۓ تو شخصیت انسانی کی تکمیل نفسیاتی اعتبار سے خود بخود ہو جاتی ہے اور اس کی اس حالت کو قرآن کریم نے"خلق عظیم" کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے.
وحدت شعور سے جس طرح انسان کی انفرادی زندگی کی تکمیل ہوتی ہے اس طرح یہ انسان کی اجتماعی زندگی کے ارتقاء کا بھی نا گزیر ذریعہ ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ شعور قومی کے فقدان وحدت سے ان میں اتحاد ،محبت اور تنظیم حقیقی طور پر باقی نہیں رہتے اور اس کے نتیجے سے ان میں تشتت و افتراق پیدا ہو جاتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ ان کی اجتماعی زندگی کا شیرازہ منتشر ہونے لگتا ہے اور وہ قوم جمود و تعطل کا شکار ہو کر ادبار و تنزل کی گہرائیوں میں گرنے لگتی ہے. نفسیات اجتماع کے اس پہلو کی قرآن حکیم نے اس طرح تصریح کی ہے.(جمالیات -ص-٢٥٢-مجلس ترقی ادب لاہور)
ان کے درمیان سخت لڑائی ہے. تو انہیں متحد خیال کرتا ہے حللآنکہ ان کے قلوب جدا جدا ہیں (یعنی کہ احساسات و جذبات اور شاعرات و مدرکات میں وحدت نہیں) یہ صورت حال اس لیے ہے کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے (القرآن ٥٩: ١٤)
اس طرح نفسیات انسانی کے اثرات جہاں افراد پر انفرادی طور پر ہیں وہاں اجتماعی طور پر بھی ہیں . اور ان امراض کا علاج ضروری ہے.
جاری ہے ...