1 comment

رؤیت ہلال اور نئی قانون سازی کی ضرورت .

    ---طالب حسیں--- 
    پاکستان کے ایک صوبےخیبر پختوں خوا میں ١٩ اگست ٢٠١٢ کو جبکہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں مرکزیرؤیت ہلال کمیٹی کی سفارش پر ٢٠ اگست کو عید الفطر منائی گئی.  ١٨ اور ١٩ اگست کی درمیانی شب کو زونلرؤیت ہلال کمیٹی پشاور نے مرکزیرؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئےکہا کہ    خیبر پختوں خوا حکومت سے  اٹھارہ (١٨)شہادتوں کی بنیاد پر عید کا اعلان کرنے کی شفارش کر دی ہے . اسی صوبے سے تعلق رکھنے والے بعض دوسرے علماءاسلام کا کہنا ہے کہ یہ شہادیتیں چونکہ ٹیلیفون کے ذریعے موصول ہوئی ہیں اس لیے قابل قبول نہیں ہیں. ادھر محکمہ موسمیات کے پاکستان بھر میں قائم کردہ 51 مشاہداتی  مراکزسے عدم رؤیت کی رپورٹ دی گئی .محکمہ موسمیات کا اعلان تھا کہ پاکستان میں کہیں بھی انسانی آنکھ تو کیا مشینی آلات سے بھی چاند نظر آنا ممکن نہیں. 
    آئیں اختصار کے ساتھ  دیکھتے ہیں کہ اس بارہ میں متقدمین اور متاخرین فقہائے اسلام کیا فرماتے ہیں. اسلام میں شہادتین کے اقرار کے بعد  کچھ ارکان کے احکام سورج سے تعلق رکھتے ہیں ، کچھ کے چاند سے  اور بعض دونوں سے بھی . اسلامی تقویم  قمری مہینوں کی بنیاد پرمرتب کی جاتی ہے . شریعت اسلامیہ میں قمری مہینہ کے آغاز کے لیے بنیادی طور پر دو صورتیں ہوتی ہیں. پہلی یہ کہ مہینہ کی انتیس تاریخ کو غروب آفتاب کے بعد ہلال کی رؤیت ہو جاۓ  ،اگررؤیت نہ ہوتو دوسری صورت یہ ہے کہ جب مہینہ کے تیس دن پورے ہو جائیں تو اس کے بعد نیا مہینہ شروع ہو جاتا ہے.  
    قانونی لحاظ سے فقہاۓ اسلام رمضان کی رؤیت کو "روایت" اور دیگر مہینوں بشمول شوال اور ذوالحجہ کی رؤیت کی خبر کو "شہادت"قرار دیتے ہیں. چونکہ عمل کے لیے حاکم کاحکم ضروری ہوتا ہے اس لیے رمضان کی رؤیت کی خبر اس ایک حیثیت سے شہادت بھی ہے . "روایت " اور "شہادت " میں بنیادی فرق یہ ہے کہ روایت حجتہ ملزمہ (بائنڈنگ پروف *) نہیں ہے جبکہ شہادت (بائنڈنگ پروف) ہے .
    ظاہری طور پر مستورالحال ہو یا عادل ،روایت ہر شخص کی قابل قبول ہے ،جبکہ شہادت اس وقت قبول کی جاتی ہے جب گواہ کا قابل اعتماد ہونا ثابت ہو اور روایت کا عدالت میں قاضی کے سامنے بیان کرنا ضروری نہیں ہے لیکن شہادت کے لیے یہ ضروری ہے. 
    یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اس ضمن میں، آجکل کے سائنسی دور میں جدید علوم اور سہولیات سے مدد کیوں نہیں لی جاتی ؟ تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے.
    کہ ماضی میں رؤیت ہلال کے بارہ میں فقہاءکو ماہرین فلکیات کی فراہم کردہ خبر  کی قبولیت میں اس بناء پر تأمل تھا کہ سابقہ دور میں علم فلکیات بھی علم نجوم میں شامل تھا ،جس کی وجہ سے ایسے ماہرین کا " رتبہء عدالت "ساقط تصور کیا جاتا تھا .اگرچہ آج بھی اسی راۓ کو راجح تصور کیا جاتا ہے ،لیکن اگر ماہریں فلکیات رؤیت کے گواہ کے طور پر سامنے آئیں تو انکی گواہی قابل قبول ہو گی ،مگر ماہرانہ راۓ(رآی الخبیر) وہی حیثیت رکھتی ہے جو کسی معاملہ میں کسی "ماہر کی راۓ**" ہوتی ہے اور ماہرین کی آرا کو فقہاء نے بعض قیود اور شرائط کے ساتھ بہت سارے معاملات میں حجت تسلیم کیا ہے. ادھرعصرحاضر کے  فقہاء میں سے ایک گروہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے،چوںکہ فلکی حسابات سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے اس لیے رؤیت ہلال کے چکر میں پڑے بغیر محض فلکی حسابات کی بنیاد پر ایک مستقل قمری کیلنڈر بنا لینا چاہیے.اس راۓ کے قائلین میں شیخ الازہر مصطفیٰ المراغی ،شیخ احمد شاکر ،شیخ مصطفیٰ الزرقاء اور شیخ علی الطنطاوی جیسے اساطین شامل ہیں  لیکن دوسری طرف فقہاء نے اس تجویز کا رد اس طرح کیا ہے  کہ فلکی حسابات کی بنا پر یقینی طور پر چاند کی "پیدائش" کے متعلق پیش گوئی تو کی جاسکتی ہے لیکن اس کے"قابل رؤیت " ہونے کے متعلق کوئی یقینی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی .اور ایسا تجویز کندہ  شریعت اسلامیہ سے واقف نہیں ہے.محض حسابات کے زریعہ اسلامی مہینوں کے اثبات سے منصوص احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہے . مزید یہ کہ رؤیت سے مراد مجرد انسانی آنکھ سے دیکھنا ہے. دوربین اور دیگر آلات سے رؤیت اصطلاحی طور پر رؤیت نہیں کہلا سکتی کیوںکہ اس ضمن میں جتنی بھی احادیث ہیں ان میں ایک عام انسانی سطح کی رؤیت کو معیارقرار دیا گیا ہے.البتہ جو شخص نظر کی عینک استعمال کرتا ہے اس کی رؤیت قابل قبول ہوتی ہے ،کیونکہ جس شخص کی نظر عام انسانی سطح کی نظر سے کم ہو گئی ہو عینک اس کی نظر کو عام انسانی سطح پر لےآتی ہے ،جسےاضافہ تصور نہیں کیاجاتا.
    اختلاف مطالع(واحد مطلع -یعنی طلوع ہونے کی جگہ) کے اعتبار و عدم اعتبار کے بارہ میں فقہاء اگرچہ اختلاف راۓ رکھتے ہیں ،لیکن جہاں  تک اختلاف مطالع کے وجود کا تعلق ہے تو اس میں اب دو رائیں نہیں ہیں کیوں یہ بات اب  ثابت شدہ ہے کہ پوری دنیا کا ایک مطلع نہیں ہے .متقدمین میں بعض فقہاء کو اختلاف مطالع کے وجود پر شبہ تھا کیونکہ اس وقت تک علم فلکیات نے آجکل کی طرح ترقی نہیں کی تھی .تاہم متاخرین فقہاۓ اسلام نے اس کے وجود کو ایک مسلم حقیقت کے طور پر تسلیم کیا ہے.  مطلع ابر آلود اور صاف ہونے کی صورت میں  رؤیت ہلال کی خبر کے لیے فقہاء نے معیارات ،نصاب اور شروط مقرر کی ہیں  جو کہ کتب فقہ میں ملتی ہیں. 
    شرعی لحاظ سے ضروری ہے کہ مقررہ شروط اور نصاب کے مطابق  رؤیت کی شہادت مل جاۓ اور حاکم اس کے مطابق فیصلہ کر لے .تاہم اگر مقررہ نصاب اور شروط کے مطابق شہادت مل بھی جاۓ لیکن فلکی حسابات کی رو سے ماہرین کی قطعی راۓ یہ ہو کہ اس دن اس مقام پر رؤیت ناممکن تھی تو حاکم پرلازم ہو گا کہ وہ اس شہادت کو قبول نہ کرے. کیونکہ شہادت تو اس صورت میں بھی مسترد کی جا سکتی ہے جب اس میں غلطی کا احتمال ہو،جبکہ اس صورت میں اس کا غلط ہونا قطعی ہوتا ہے . 
     یہاں مرکزی  رؤیت ہلال کمیٹی اور صوبائی کمیٹیاں پاکستانی قانون کی رو سے تشکیل دی گئی ہیں  اور اس وقت یہی رمضان و عیدین اور دیگر اسلامی مہینوں کے فیصلوں کا قانونی و شرعی اختیار -ولایتہ - رکھتی ہیں. غیر سرکاری کمیٹیوں کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ سرکاری کمیٹیوں کے فیصلوں سے متصادم اپنے فیصلوں کو وہ عامتہ الناس پر نافذ کریں .(ماخذ مندرجہ ذیل فکرونظر)
    اب اس ضمن میں  ایک صوبے اور مرکز کے درمیان اختلاف راۓ پائی جاتی ہے لہذا رؤیت ہلال جیسے اہم مسلہ پرنئی قانون سازی کا مطالبہ کیا جارہا ہے .جس میں مذھبی اور سیاسی رہنما مولانا فضل الرحمٰن سر فہرست ہیں.

    مزید مطالعہ اگر ضروری ہو تو علم فلکیات ،کتب فقہ کے ساتھ ساتھ دیکھیں، محمد مشتاق احمد کے مضامین ،سہ ماہی فکر و نظر -ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد -دسمبر ٢٠٠٩ ،جون ٢٠١٠ ،٢٠١١- میں.
    *Binding proof  
     ** Opinion of Expert 


    Stay Connected To Get Free Updates!

    Subscribe via Email

    Follow us!

    1 comment:



    1. بعض لوگ رویت ہلال کے بارہ میں بے سر و پا خبریں پھیلا دیتے ہیں . فتاویٰ رضویہ ،ج-١٠،ص ٤١٥ میں ہے .
      "فقیر کو بارہا یہ تجربہ ہوا کہ ایسی شہرتیں محض بے سروپا نکلتی ہیں . اسی زی الحجہ میں خبر شا ئع ہوئی کہ آنولے میں چاند (طلوع)ہوا ہے ،وہاں عام لوگوں نے دیکھا ہے اور فقیر کے ایک دوست کا خاص نام لیا گیا کہ وہ آے اور خود اپنی رویت اور وہاں سب کا دیکھنا بیان کرتے تھے. فقیر نے ان کے پاس ایک معتمد کو بھیجا . وہاں سے جواب ملا کہ یہاں ابر غلیظ تھا، نہ میں نے دیکھا ،نہ کسی اور نے دیکھا. پھر خبر اڑی کہ شاہجہان پور میں تو ایک ایک شخص نے دیکھا . فقیر نے وہاں بھی ایک معتمدثقہ کو اپنے ایک دوست عالم کے پاس بھیجا . انہوں نے فرمایا : اس کا حال میں آپ کو مشاہدہ کرائے دیتا ہوں . ان کا ہاتھ پکڑ کر شہر میں گشت کیا اور دروازہ دروازہ دریافت کرتے پھرتے: عید کب ہے؟ کہا، جمعہ کی-کہا-کیا چاند دیکھا؟،کہا: دیکھا تو نہیں -کہا: پھر کیوں؟ اس کا جواب کچھ نہ تھا. شہر بھر سے بھی یہی جواب ملا. صرف ایک شخص نے کہا. میں نیے منگل کو چاند دیکھا تھا اور میرے ساتھ فلاں فلاں صاحب نے بھی. اب یہ عالم مع ان معتمد کے دوسرے صاحب کے پاس گئے-ان سے دریافت کیا -کہا،وہ غلط کہتا تھا-اور خود ان دو صاحبوں کے ساتھ اس گواہ صاحب کے پاس آئے-اب یہ بھی پلٹ گئےکہ ہاں کچھ یاد نہیں . پھر خبر گرم ہوئی کہ رامپور میں چاند دیکھا گیا اور جمعہ کی عید قرار پائی . فقیر نیے دو ثقہ شخصوں کو وہاں کے دو علماۓ کرام اپنے احباب کے پاس بھیجا. معلوم ہوا ،وہاں بھی ابر تھا،کسی نے بھی نہ دیکھا (ص-٤٢٦ حوالہ بالا)
      محمد مشتاق احمد ،یہ حوالہ دینے کے بعد اس میں اضافہ کرتے ہیں کہ " راقم الحروف کے ذاتی تجربے اور مشاہدے کے مطابق مردان ،صوابی ،چارسدہ اور پشاور میں رویت کی خبریں بالعموم اسی طرح پھیل جاتی ہیں جیسے اس واقعہ میں مذکور ہیں.(فکرونظر -جون--ص-١٢٠،١٢١ )

      ReplyDelete